رسموں کی زنجیریں اور ڈاکٹر زوبیہ

kidsstories
0

رسموں کی زنجیریں اور ڈاکٹر زوبیہ

ڈاکٹر زوبیہ ایک ایسے وڈیرے کی بیٹی تھی جس کا نام پورے علاقے میں عزت اور رعب سے لیا جاتا تھا۔ اس کے خاندان میں صدیوں سے چلی آ رہی رسموں اور رواجوں کو نہ صرف سختی سے نبھایا جاتا تھا بلکہ انہیں توڑنا گناہ سمجھا جاتا تھا۔ زوبیہ ذہین اور آزاد خیال تھی، لیکن وہ ان رسموں کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی تھی۔

ڈاکٹر زوبیہ
ڈاکٹر زوبیہ 

اس کا بڑا بھائی، جو خاندان کا وارث تھا، ان روایات کا سب سے بڑا پیروکار تھا۔ زوبیہ کی ہر خواہش، ہر خواب ان رسموں کی وجہ سے ادھورا رہ جاتا تھا۔ وہ پڑھنا چاہتی تھی، لیکن وڈیروں کی بیٹیوں کو گھر سے باہر پڑھنے کی اجازت نہیں تھی۔ وہ اپنے قدموں پر کھڑا ہونا چاہتی تھی، لیکن وڈیروں کی بیٹیوں کا کام صرف شادی کرنا اور گھر سنبھالنا تھا۔ اس کے دل میں ایک طوفان مچا ہوا تھا، ایک طرف خاندان کی عزت اور دوسری طرف اس کی اپنی شخصیت کی پکار۔

ایک دن، جب اس کی شادی ایک ایسے ہی وڈیرے کے بیٹے سے طے کی جا رہی تھی، جس کا کردار بالکل اس کے بھائی جیسا تھا، زوبیہ نے فیصلہ کیا کہ اب وہ چپ نہیں رہے گی۔ اس نے اپنے والد کے سامنے اپنی ساری خواہشات اور خوابوں کا اظہار کیا۔ وہ جانتی تھی کہ اس کا یہ قدم خاندان کی عزت پر سوال اٹھا سکتا ہے، لیکن اس کے لیے اپنی ذات کو قربان کرنا بھی ناممکن تھا۔

اس کے والد، جو کہ ایک سخت دل انسان سمجھے جاتے تھے، اپنی بیٹی کی آنکھوں میں چمک اور اس کے دل میں جذبہ دیکھ کر حیران رہ گئے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ اپنی بیٹی کی بات مانیں یا صدیوں پرانی رسموں کو نبھائیں۔ زوبیہ نے انہیں قائل کیا کہ سچی عزت اور مقام لوگوں کی ترقی میں ہے نہ کہ انہیں پابند کرنے میں۔

طویل بحث و مباحثے کے بعد، اس کے والد نے اس کی بات مان لی۔ یہ خاندان میں ایک انقلابی فیصلہ تھا۔ زوبیہ نے گھر سے باہر نکل کر تعلیم حاصل کی۔ اس نے دن رات محنت کی اور ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کر کے ڈاکٹر زوبیہ بن گئی۔

اب وہ صرف ایک وڈیرے کی بیٹی نہیں تھی، بلکہ ایک بااثر اور کامیاب خاتون تھی۔ اس نے اپنے علاقے میں ایک ہسپتال کھولا جہاں اس نے غریبوں کا مفت علاج کیا۔ اس نے ثابت کیا کہ علم اور محنت سے نہ صرف اپنی قسمت بدلی جا سکتی ہے بلکہ پورے معاشرے کی تقدیر کو بھی سنوارا جا سکتا ہے۔ اس کی کہانی نے بہت سی دوسری لڑکیوں کو بھی جرات دی کہ وہ اپنے خوابوں کا پیچھا کریں اور اپنی راہ خود بنائیں۔ اس نے ثابت کیا کہ رسمیں اور رواج تب تک ہی مضبوط ہوتے ہیں جب تک ہم انہیں نبھاتے ہیں، اور جب انسان ہمت کرتا ہے تو زندگی کی نئی راہیں خود بخود کھل جاتی ہیں۔

 


ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !