سالار سکندر ایک متکبر دل کا سفر
سالار سکندر ایک ایسا نام تھا جو اختیارات اور غرور کا دوسرا نام تھا۔ ایک نوجوان اسسٹنٹ کمشنر کی حیثیت سے، اس کے اندر یہ تکبر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا کہ وہ اپنی ذہانت اور عہدے کی وجہ سے دوسروں سے بہتر ہے۔ لوگوں کو حقیر سمجھنا، ان کی باتوں پر کان نہ دھرنا اور صرف اپنے فیصلوں کو درست ماننا اس کی عادت تھی۔ وہ سمجھتا تھا کہ زندگی میں اصل طاقت عہدہ اور دولت ہے، اور اللہ کی محبت یا مذہب جیسے خیالات کمزور لوگوں کے لیے ہیں۔
![]() |
سالار سکندر |
اس کی زندگی میں کوئی ایسا شخص نہیں تھا جو اس کے رویے کو چیلنج کر سکے۔ وہ ہمیشہ اپنے آس پاس کے لوگوں کو ڈراتا دھمکاتا اور اپنی مرضی چلاتا تھا۔ وہ اپنی زندگی کو ایک بے مقصد دوڑ سمجھتا تھا، جہاں صرف کامیابی اور جیت ہی اہم تھی۔ اس کے دل میں سکون نہیں تھا، لیکن اسے اس کا احساس تک نہیں تھا۔
ایک دن سالار کا تبادلہ ایک ایسے چھوٹے اور پسماندہ شہر میں ہوا جہاں وسائل کی کمی تھی اور لوگ غربت کا شکار تھے۔ اس شہر میں اس کا سامنا ایک ایسے شخص سے ہوا جو اس کے نظریات کے بالکل برعکس تھا۔ اس شخص کا نام کبیر تھا، جو ایک مسجد کا امام اور ایک مدرسے کا استاد تھا۔ کبیر انتہائی عاجز، نرم دل اور صابر انسان تھا۔ اس کا چہرہ ہمیشہ ایک نور سے جگمگاتا رہتا تھا اور وہ اپنے کاموں میں اللہ کی رضا کو مقدم رکھتا تھا۔
سالار نے شروع میں کبیر کو بھی حقیر سمجھا اور اس کا مذاق اڑایا۔ ایک روز، سالار نے کبیر سے کہا کہ آپ کی یہ عاجزی، یہ صبر، اور یہ سادہ پن کس کام کا؟ اصل طاقت تو اختیار اور دولت ہے۔ کبیر نے سالار کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا، بس مسکرا کر کہا، "سالار صاحب، اصل طاقت وہ نہیں جو نظر آتی ہے، بلکہ وہ ہے جو دل کو سکون دے۔"
کبیر کی بات سالار کے دل میں کہیں گونج گئی۔ ایک رات، سالار کو ایک انتہائی اہم سرکاری منصوبے پر کام کرتے ہوئے شدید ذہنی پریشانی کا سامنا ہوا۔ اس کا دماغ، جو ہر مشکل کا حل نکال لیتا تھا، اس وقت ناکام ہو چکا تھا۔ وہ غصے اور مایوسی میں گھرا ہوا تھا کہ اسی وقت اس کی نظر کبیر کی جھونپڑی پر پڑی جہاں کبیر اللہ کی عبادت میں مصروف تھا۔ کبیر کے چہرے پر ایک عجیب سا سکون تھا، جو سالار کو اپنی بے چینی کے باوجود اپنی طرف کھینچ رہا تھا۔
سالار چپکے سے کبیر کی جھونپڑی کے قریب گیا اور اسے عبادت کرتے ہوئے دیکھا۔ کبیر اس طرح اللہ سے راز و نیاز کر رہا تھا جیسے وہ اس کا سب سے قریبی دوست ہو۔ عبادت کے بعد، کبیر نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اور سالار نے سنا کہ وہ کس طرح شہر کی بھلائی، لوگوں کے دکھوں اور حتیٰ کہ سالار کی ہدایت کے لیے بھی دعا کر رہا تھا۔ سالار کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اسے پہلی بار احساس ہوا کہ اس کا دل کتنا خالی اور بے سکون ہے۔
وہ اسی وقت کبیر کے پاس گیا اور اس سے معافی مانگی۔ اس نے کبیر سے پوچھا کہ آپ کا یہ سکون اور روشنی کہاں سے آتی ہے؟ کبیر نے جواب دیا، "یہ اللہ کی محبت ہے سالار صاحب۔ جب آپ اپنے دل کو اللہ کے لیے کھولتے ہیں، تو وہ اسے سکون سے بھر دیتا ہے
اس لمحے سے، سالار سکندر کی زندگی کا ایک نیا باب شروع ہوا۔ اس نے اپنی مغرور طبیعت کو چھوڑ دیا اور اللہ کی محبت کے راستے پر چل پڑا۔ اس نے نمازیں پڑھنا شروع کیں، قرآن کی تلاوت کی اور اپنی زندگی کو لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے وقف کر دیا۔ وہ اپنی اختیارات کا استعمال اب غریبوں کی مدد اور مظلوموں کو انصاف دلانے کے لیے کرنے لگا۔
سالار کے اندر وہ نرمی اور عاجزی پیدا ہو چکی تھی جو کبھی اس کے لیے ناقابل تصور تھی۔ اس کی پہچان اب ایک مغرور افسر کے بجائے ایک رحم دل اور ایمان دار انسان کے طور پر تھی۔ اس کی یہ تبدیلی دیکھ کر لوگ حیران تھے کہ ایک انسان کیسے مکمل طور پر بدل سکتا ہے۔
سالار کو آخرکار یہ سمجھ آ گئی تھی کہ دنیا کی اصل طاقت دولت یا عہدہ نہیں بلکہ اللہ کی محبت ہے۔ اسی محبت میں سکون ہے، اسی میں کامیابی ہے اور اسی میں زندگی کا حقیقی مقصد ہے۔
یہ کہانی ہمیں سکھاتی ہے کہ اگر انسان کا دل ایمان اور اللہ کی محبت سے بھر جائے، تو دنیا کا کوئی بھی غرور اور تکبر اس کے راستے کی رکاوٹ نہیں بن سکتا۔