محنتی رکشے والا
ایک تھا غریب رکشے والا، نام تھا اس کا عباس۔ روز صبح سویرے اپنی پرانی سائیکل رکشے کو لے کر نکل پڑتا۔ گرمی ہو یا سردی، بارش ہو یا دھوپ، عباس کبھی ہمت نہیں ہارتا تھا۔ اس کے چہرے پر ہمیشہ ایک مسکراہٹ رہتی، چاہے حالات کتنے ہی مشکل کیوں نہ ہوں۔
![]() |
عباس۔ |
عباس کا خواب تھا کہ وہ اپنی بیٹی کو اچھی تعلیم دلائے۔ اس کی بیٹی، سائرہ، پڑھائی میں بہت ہوشیار تھی۔ عباس کو یقین تھا کہ ایک دن سائرہ پڑھ لکھ کر بڑا آدمی بنے گی اور ان کی غربت دور کرے گی۔ اسی خواب کو پورا کرنے کے لیے وہ دن رات محنت کرتا تھا۔ اس کے پڑوسی، کریم چاچا اور زاہدہ خالہ، اسے طعنے دیتے، ہنستے، مگر عباس کسی کی پرواہ نہیں کرتا تھا۔ اسے صرف اپنی محنت اور اللہ پر بھروسہ تھا۔
ایک دن ایک سیٹھ صاحب اسلم کو کہیں جانے کے لیے رکشے کی ضرورت پڑی۔ انہوں نے کئی رکشوں کو آواز دی مگر سب نے انکار کر دیا کیونکہ راستہ بہت خراب اور لمبا تھا۔ آخر میں انہوں نے عباس کو آواز دی۔ عباس نے ایک لمحے کی بھی دیر نہ کی اور فوراً ہاں کر دی۔ راستے میں سیٹھ اسلم صاحب عباس کی محنت اور اس کی مثبت سوچ سے بہت متاثر ہوئے۔ انہوں نے باتوں باتوں میں عباس سے اس کے خواب کے بارے میں پوچھا۔ عباس نے اپنی بیٹی کی تعلیم کا ذکر کیا اور بتایا کہ وہ کس طرح اس کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہے۔
سیٹھ اسلم صاحب عباس کی ایمانداری اور لگن سے اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے عباس کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے سائرہ کی پڑھائی کا سارا خرچہ اٹھا لیا اور عباس کو بھی اپنے کاروبار میں ایک چھوٹی سی نوکری دے دی۔ عباس کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے۔ اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ اس کی محنت اور سچائی کا ایسا صلہ ملے گا۔
کچھ سال بعد، سائرہ نے اپنی پڑھائی مکمل کی اور ایک کامیاب ڈاکٹر بن گئی۔ اس نے اپنے والد کا خواب پورا کر دکھایا۔ عباس اب رکشہ نہیں چلاتا تھا، بلکہ عزت کی زندگی گزار رہا تھا۔ یہ سب اس کی محنت، صبر اور مثبت سوچ کا نتیجہ تھا۔
کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں اس کہانی میں مزید کوئی اور تبدیلی کروں؟