نانی گلابو کی مالا
گاؤں کے مرکزی چوک میں یہ آواز گونجی۔ یہ آواز اس قدر ناامیدی اور گھبراہٹ سے بھری ہوئی تھی کہ سبھی اپنے اپنے کام چھوڑ کر اس کی طرف متوجہ ہوئے۔ آواز ایک بزرگ خاتون، "نانی گلابو" کی تھی، جن کے جھریوں بھرے چہرے پر کبھی مسکراہٹ کی چمک ہوا کرتی تھی، آج وہ بھی غائب تھی۔ وہ زمین پر بیٹھی اپنی خالی ٹوکری دیکھ رہی تھیں اور ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
"آج میں اپنے سب سے قیمتی موتیوں کی مالا بیچ کر بھی آدھے گھر کا راشن نہیں خرید پائی۔ یہ کیسی آفت ہے جو ہم پر نازل ہو گئی ہے؟" انہوں نے کراہتے ہوئے کہہا
![]() |
نانی گلابو کی مالا |
ایک ٹھنڈی آہ گاؤں کے چوک میں پھیل گئی۔ ہر چہرے پر یہی دکھ لکھا تھا۔ مہنگائی ایک بے رحم طوفان کی طرح ان کے گاؤں "روشن آباد" میں آ چکی تھی۔ جہاں کبھی صبح کا آغاز پرندوں کی چہچہاہٹ اور ہنسی مذاق سے ہوتا تھا، وہاں اب ہر گھر سے پریشانی اور خاموشی کی آوازیں آتی تھیں۔ بچے بھوک سے بلکتے، نوجوان اپنے بے روزگاری کے دکھ میں گم تھے اور بزرگ اپنی بچت کی ہوئی پونجی کو بے معنی ہوتے دیکھ کر دل ہی دل میں روتے تھے۔ وہ پونجی جو انہوں نے اپنے بچوں کے روشن مستقبل کے لیے جمع کی تھی، آج اس کی کوئی قیمت نہیں رہ گئی تھی۔
گاؤں کے سرپنچ، رحمان بابا، جو ایک سمجھدار اور دلیر شخص تھے، خاموشی سے یہ سب دیکھ رہے تھے۔ ان کی آنکھیں نم تھیں مگر چہرے پر عزم تھا۔ انہیں معلوم تھا کہ اگر یہ خاموشی زیادہ دیر تک رہی تو روشن آباد کی روشنی ہمیشہ کے لیے بجھ جائے گی۔ انہوں نے ایک گہری سانس لی اور اپنی لکڑی کی لاٹھی زمین پر زور سے پٹخ دی۔
"یہ کوئی آفت نہیں، میرے بچو! یہ ہماری ایک آزمائش ہے۔ اور اس آزمائش سے نکلنے کے لیے ہمیں ایک بننا ہوگا۔ الگ الگ رہتے ہوئے تو ہم ٹوٹ جائیں گے، لیکن اگر ہم ایک ہو کر اس طوفان کا سامنا کریں تو کوئی طاقت ہمیں ہرا نہیں سکتی۔" ان کی آواز میں ایک نئی توانائی تھی، جو سوئی ہوئی امید کو جگا رہی تھی۔
حصہ دوم: امید کا سورج
رحمان بابا نے سب کو ایک ساتھ بٹھایا۔ ان کا سب سے پہلا قدم تھا بچت کا سبق۔ انہوں نے ہر گھر کو ایک مٹی کا گھڑا دیا اور کہا، "جو بھی اضافی پیسہ ہو، اس گھڑے میں ڈالو۔ کوئی چیز ضائع نہ کرو۔ صرف وہی خریدو جو انتہائی ضروری ہو۔" لوگ اس پر ہچکچائے، لیکن رحمان بابا کے اعتماد نے انہیں حوصلہ دیا۔ دھیرے دھیرے، گھروں میں غیر ضروری خرچ کم ہونے لگے۔ بچی ہوئی روٹیاں ضائع ہونے کے بجائے اگلے دن کے ناشتے کا حصہ بن گئیں، اور پرانے کپڑوں کو نئے مقاصد کے لیے استعمال کیا جانے لگا۔
لیکن صرف بچت ہی کافی نہیں تھی۔ مہنگائی کا اصل مقابلہ کرنے کے لیے کچھ اور بھی کرنا تھا۔ رحمان بابا نے دوسرا قدم اٹھایا: اپنی پیداوار خود بڑھاؤ۔
انہوں نے گاؤں کے کسانوں کو بلایا اور کہا، "ہمیں شہر کے بیجوں اور کھادوں پر انحصار ختم کرنا ہوگا۔ گاؤں کی زمین بہت زرخیز ہے۔ ہمیں مل کر وہ بیج پیدا کرنے ہوں گے جو ہم اگلی فصل میں استعمال کر سکیں۔" نوجوانوں نے، جو بے روزگاری کے شکار تھے، اپنی زمینوں پر سبزیوں اور پھلوں کے باغات لگانے شروع کر دیے۔ بوڑھوں نے انہیں دیسی طریقوں سے زمین کو زیادہ زرخیز بنانے کا طریقہ سکھایا، اور خواتین نے گھریلو سبزیوں کے باغیچے بنانے شروع کر دیے۔
جلد ہی، گاؤں کا ماحول بدلنے لگا۔ ہریالی چاروں طرف پھیل گئی۔ تازہ سبزیاں، اناج اور پھل اب گھر میں ہی میسر تھے۔ اس عمل نے ان کی مہنگائی کی پریشانی کو بہت کم کر دیا۔ لیکن ابھی بھی کچھ چیزیں ایسی تھیں جو انہیں باہر سے خریدنی پڑتی تھیں، جیسے تیل، نمک اور مصالحے۔
اس کا حل بھی رحمان بابا نے نکال لیا۔ انہوں نے اجتماعی تعاون کا ایک منصوبہ بنایا۔ گاؤں کے ہر گھرانے سے ایک فرد کو بلایا گیا، اور سب نے مل کر ایک "گاؤں کی دکان" کھولی۔ یہ دکان کسی ایک کی نہیں تھی، بلکہ سب کی تھی۔ سب لوگ جو اپنی پیداوار بچاتے تھے، وہ یہاں بیچتے اور ضروری سامان خریدتے تھے۔ منافع سب میں برابر تقسیم ہوتا تھا۔ اس طرح، انہوں نے درمیان میں موجود دلالوں اور ان کے مہنگے داموں کو ختم کر دیا۔
حصہ سوم: امید کی فتح
کچھ مہینوں بعد، گاؤں کا چہرہ مکمل طور پر بدل چکا تھا۔ مٹی کے گھڑے پیسوں سے بھر چکے تھے۔ بچوں کے چہرے پر ہنسی لوٹ چکی تھی۔ نوجوان اپنی محنت سے حاصل ہونے والی پیداوار دیکھ کر فخر محسوس کرتے تھے۔ اور نانی گلابو، جن کی آنکھوں میں کبھی آنسو تھے، آج ہنستے ہوئے اپنی ٹوکری بھر کر گاؤں کی دکان سے واپس جا رہی تھیں۔ ان کی مالا اب بھی ان کے پاس تھی، کیونکہ اب انہیں وہ بیچنے کی ضرورت نہیں تھی۔
اس گاؤں نے یہ ثابت کر دیا کہ مہنگائی صرف ایک اقتصادی مسئلہ نہیں، بلکہ یہ ایک ذہنی اور سماجی چیلنج ہے۔ اس کا مقابلہ حکومتوں کے اقدامات سے پہلے ہمارے اپنے اعمال اور رویوں سے ہوتا ہے۔ اگر ہم بچت کو اپنا لیں، اپنی ضروریات کو کم کریں، خود انحصاری کی طرف قدم بڑھائیں اور سب سے اہم، ایک دوسرے کا ہاتھ تھام لیں، تو کوئی بھی طوفان ہمیں توڑ نہیں سکتا۔
رحمان بابا ایک شام سب کے درمیان بیٹھے تھے۔ انہوں نے نانی گلابو کو دیکھا اور مسکرائے۔ "دیکھا؟" انہوں نے کہا۔ "ہم نے مہنگائی کو نہیں، بلکہ اپنی پریشانی اور بے بسی کو ہرایا ہے۔"
"اور اس جیت کا سہرا ہم سب کی سمجھداری اور آپ کے اعتماد پر ہے،" نانی گلابو نے جواب دیا۔ "آپ نے ہمیں یہ بتایا کہ روشنی کہیں باہر سے نہیں آتی، بلکہ وہ ہمارے اپنے دلوں میں ہوتی ہے۔"
اور اس دن روشن آباد ایک بار پھر روشن ہو گیا، اس بار صرف سورج کی روشنی سے نہیں، بلکہ اتحاد اور امید کی روشنی سے۔