غریب کسان اور امید کی کرن
ایک چھوٹے سے گاؤں میں، جہاں چاروں طرف غربت کا راج تھا، ایک کسان رہتا تھا جس کا نام احمد تھا۔ احمد کے پاس نہ تو بڑی زمین تھی اور نہ ہی کوئی خاص آمدنی کا ذریعہ۔ اس کی چھوٹی سی کچی جھونپڑی اور ایک چھوٹا سا کھیت ہی اس کی کل کائنات تھی۔ دن رات محنت مزدوری کرنے کے باوجود اس کے گھر میں اکثر فاقے رہتے۔ اس کی بیوی اور بچے بھی اس کے ساتھ دن بھر کھیتوں میں کام کرتے، لیکن قسمت کو جیسے ان پر رحم نہیں آتا تھا۔ احمد کے دل میں ہمیشہ ایک خواہش رہتی تھی کہ وہ اپنی اولاد کو بہتر زندگی دے، انہیں تعلیم دلائے تاکہ وہ اس غربت کے چکر سے نکل سکیں۔
![]() |
محنتی کسان |
یک سال، فصل بالکل تباہ ہوگئی۔ بارشیں نہیں ہوئیں اور جو تھوڑی بہت فصل تیار بھی ہوئی تھی، وہ کیڑوں نے چاٹ لی۔ احمد بہت مایوس ہوا، اس کی آنکھوں میں آنسو تھے لیکن وہ انہیں کسی کو دکھانا نہیں چاہتا تھا۔ اس کے پڑوسیوں نے اسے مشورہ دیا کہ وہ گاؤں چھوڑ کر شہر چلا جائے، وہاں کچھ مزدوری کر لے، شاید حالات بہتر ہو جائیں۔ احمد نے ان کی بات سنی، لیکن اس کے دل نے اسے اجازت نہیں دی۔ وہ اپنی مٹی، اپنے کھیت کو چھوڑنا نہیں چاہتا تھا۔
ایک دن، جب وہ اپنے خالی کھیت میں بیٹھا تھا، سورج غروب ہو رہا تھا اور آسمان پر نارنجی اور ارغوانی رنگ بکھرے ہوئے تھے۔ اس کے ذہن میں ایک خیال آیا۔ اس نے سوچا، "میں ہمیشہ وہی پرانی فصلیں کیوں بوتا ہوں؟ جو ہر سال تباہ ہو جاتی ہیں۔ مجھے کچھ نیا کرنا ہوگا۔" اگلے ہی دن، احمد نے اپنے گاؤں کے واحد پڑھے لکھے شخص، ماسٹر جی سے ملاقات کی۔ ماسٹر جی نے اسے مختلف قسم کی سبزیوں کے بارے میں بتایا جو اس کی زمین اور موسم کے لیے مناسب ہو سکتی تھیں۔ انہوں نے یہ بھی مشورہ دیا کہ وہ تھوڑے سے پیسے قرض لے کر نئی قسم کے بیج خریدے۔
![]() |
غریب کسان اور امید کی کرن |
حمد کے پاس تو کوئی ضمانت بھی نہیں تھی، پھر بھی اس نے ہمت کی اور ایک مقامی ساہوکار سے تھوڑا قرض لے لیا۔ اس نے اپنی جھونپڑی کا ایک حصہ مرمت کیا تاکہ وہ بیجوں کو محفوظ رکھ سکے۔ اس بار، اس نے اپنی پوری لگن اور محنت سے کام کیا۔ اس نے ماسٹر جی کے مشورے پر عمل کیا، پانی کی بچت کے نئے طریقے اپنائے۔ راتوں کو جاگ کر کھیت کی نگرانی کی، ہر پودے کی دیکھ بھال ایسے کی جیسے وہ اس کا اپنا بچہ ہو۔
وقت گزرتا گیا اور قدرت نے اس کی محنت کا پھل دیا۔ اس کی سبزیوں کی فصل اتنی اچھی ہوئی کہ گاؤں والے دیکھ کر حیران رہ گئے۔ اس نے پہلی بار شہر کی منڈی میں اپنی سبزیاں بیچیں اور اسے بہت منافع ہوا۔ احمد کی زندگی بدلنا شروع ہو گئی تھی۔ اس نے سب سے پہلے اپنا قرض چکایا، پھر اپنے بچوں کو سکول بھیجا۔ اس نے اپنی جھونپڑی کی بھی مرمت کروائی اور ایک چھوٹا سا پختہ گھر بنا لیا۔
احمد کی کہانی گاؤں میں مثال بن گئی تھی۔ اس نے نہ صرف اپنی زندگی بدلی بلکہ دوسروں کو بھی سکھایا کہ ہمت اور عزم سے کچھ بھی ممکن ہے۔ غربت صرف حالات کا نام نہیں، یہ اکثر ہمارے ذہن کی حالت بھی ہوتی ہے۔ اگر ہم مثبت سوچ رکھیں، کچھ نیا کرنے کی ہمت کریں اور محنت سے پیچھے نہ ہٹیں، تو کوئی بھی مشکل ہمیں آگے بڑھنے سے نہیں روک سکتی۔ احمد ایک غریب کسان تھا، لیکن اس نے اپنی ہمت اور لگن سے ثابت کر دیا کہ امید کی کرن کبھی نہیں بجھتی، بس اسے تلاش کرنے اور روشن رکھنے کی ضرورت ہے