عزم اور حوصلے کی مثال
ایک چھوٹے سے گاؤں میں، جہاں سرسبز کھیت اور بہتے دریا تھے، ایک چھوٹی سی بچی رہتی تھی جس کا نام فاطمہ تھا۔ فاطمہ کی زندگی دیگر بچوں جیسی نہیں تھی، کیونکہ اس نے بہت چھوٹی عمر میں اپنے والدین کو کھو دیا تھا۔ وہ اپنے نانا نانی کے ساتھ رہتی تھی، جو خود بھی کافی غریب تھے۔ غربت اور یتیمی کے باوجود، فاطمہ کی آنکھوں میں ایک چمک تھی، ایک ایسا خواب تھا جو اسے ہر روز آگے بڑھنے کی تحریک دیتا تھا۔گاوں کے اکثر بچے سکول جاتے تھے اور نئی نئی چیزیں سیکھتے تھے۔ فاطمہ کا دل بھی چاہتا تھا کہ وہ سکول جائے، کتابیں پڑھے اور علم حاصل کرے۔ مگر اس کے نانا نانی کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ وہ اسے سکول بھیج سکیں۔ فاطمہ کو یہ بات بہت دکھ دیتی تھی، لیکن اس نے کبھی ہار نہیں مانی۔ وہ جانتی تھی کہ علم ہی واحد راستہ ھے جو اسے اس غربت کے چکر سے نکال سکتا ہے۔
![]() |
فاطمہ |
فاطمہ دن بھر اپنے نانا نانی کے کاموں میں ہاتھ بٹاتی تھی۔ وہ کھیتوں میں جاتی، چھوٹے موٹے کام کرتی اور گھر کے کام کاج میں بھی مدد دیتی۔ لیکن جیسے ہی اسے فرصت ملتی، وہ کسی کونے میں بیٹھ جاتی اور کتابوں کی تلاش میں نکل کھڑی ہوتی۔ چونکہ اس کے پاس اپنی کتابیں نہیں تھیں، وہ گاؤں کے دوسرے بچوں سے ان کی پرانی کتابیں مانگ کر پڑھتی تھی۔ وہ ان کتابوں کو اتنی احتیاط سے پڑھتی تھی جیسے وہ کوئی خزانہ ہوں۔ اس کے پاس وقت کم ہوتا تھا، اس لیے وہ دن رات ایک کر دیتی، کبھی چراغ کی دھیمی روشنی میں تو کبھی چاند
کی مدھم چاندنی میں پڑھائی کرتی تھی۔
فاطمہ کی لگن اور محنت دیکھ کر گاؤں کے ایک ریٹائرڈ استاد، جو چوہدری صاحب کے نام سے مشہور تھے، بہت متاثر ہوئے۔ انہوں نے دیکھا کہ یہ بچی عام نہیں ہے۔ اس میں کچھ خاص ہے۔ ایک دن انہوں نے فاطمہ کو اپنے پاس بلایا اور پوچھا، "بیٹی، تم اتنا شوق سے پڑھتی ہو، سکول کیوں نہیں جاتیں؟" فاطمہ نے سچ سچ بتا دیا کہ اس کے حالات ایسے نہیں ہیں۔
چوہدری صاحب کا دل فاطمہ کی حالت پر پسیج گیا۔ وہ جانتے تھے کہ اگر اس بچی کو موقع ملا تو یہ بہت آگے جائے گی۔ انہوں نے فاطمہ کو مفت پڑھانے کی پیشکش کی۔ فاطمہ کی آنکھیں خوشی سے چمک اٹھیں۔ یہ اس کے لیے ایک بہت بڑا موقع تھا۔ اب فاطمہ نے اپنی پڑھائی پر اور زیادہ توجہ دی۔ وہ چوہدری صاحب سے بہت کچھ سیکھتی۔ وہ صرف کتابی علم ہی نہیں بلکہ زندگی کے اصول بھی سیکھتی تھی۔ چوہدری صاحب نے اسے بتایا کہ غربت کوئی رکاوٹ نہیں ہے، بلکہ عزم اور محنت سے ہر مشکل کو آسانی سے پار کیا جا سکتا ہے۔
وقت گزرتا گیا اور فاطمہ دن بدن ذہین ہوتی گئی۔ اس نے ابتدائی تعلیم مکمل کی، پھر مڈل اور پھر ہائی سکول میں داخلہ لیا۔ ہر امتحان میں اس نے بہترین کارکردگی دکھائی اور وظائف حاصل کیے۔ اس کی ذہانت اور محنت کی وجہ سے اسے شہر کے ایک اچھے کالج میں داخلہ مل گیا۔ کالج میں بھی فاطمہ نے اپنی محنت کا لوہا منوایا۔ وہ راتوں کو جاگ جاگ کر پڑھتی اور دن میں کالج کے مختلف پروگراموں میں حصہ لیتی۔آخرکار، وہ دن بھی آ گیا جب فاطمہ نے یونیورسٹی سے نمایاں کامیابی کے ساتھ گریجویشن کی۔ وہ نہ صرف گریجویٹ ہوئی بلکہ اسے ایک بڑی کمپنی میں اچھی نوکری بھی مل گئی۔ یہ صرف فاطمہ کی کامیابی نہیں تھی، یہ اس کے نانا نانی کی قربانیوں، چوہدری صاحب کی رہنمائی اور اس کے اپنے اٹوٹ عزم کی فتح تھی۔فاطمہ اب ایک کامیاب اور خود مختار خاتون تھی۔ اس نے سب سے پہلے اپنے نانا نانی کے لیے ایک اچھا گھر بنوایا اور ان کی زندگی کو خوشحال بنایا۔ اس نے گاؤں کے دوسرے غریب بچوں کی مدد کے لیے ایک سکول بھی قائم کیا تاکہ کوئی بھی بچہ علم سے محروم نہ رہے۔فاطمہ کی کہانی یہ بتاتی ہے کہ حالات کیسے بھی ہوں، اگر انسان کے ارادے مضبوط ہوں اور اس میں کچھ کرنے کی لگن ہو، تو کوئی بھی مشکل اسے آگے بڑھنے سے نہیں روک سکتی۔ یتیمی اور غربت کے باوجود، فاطمہ نے ثابت کر دیا کہ حوصلہ، محنت اور اللہ پر بھروسہ انسان کو ہر منزل تک پہنچا سکتا ہے۔ اس کی کہانی آج بھی بہت سے لوگوں کے لیے ایک مشعلِ راہ ہے کہ اگر دل میں لگن ہو تو ہر
خواب حقیقت بن سکتا ہے۔