علی کا سفرِ عروج
رحیم یار خان کے ایک پرسکون، دھول بھرے گاؤں میں، جہاں گنے کے کھیت لہلہاتے تھے اور ٹریکٹروں کی مدھم آواز گونجتی تھی، ایک نوجوان علی رہتا تھا۔ اپنے بہت سے ہم عمروں کے برعکس جو بڑے شہروں میں کام کے لیے ہجرت کرنے کا خواب دیکھتے تھے، علی کا عزائم اپنے گاؤں میں ہی گہرا پیوست تھا۔ وہ یہاں صرف دھول اور روایت نہیں، بلکہ امکانات دیکھتا تھا—شاید غیر محسوس شدہ، لیکن بھرپور صلاحیت سے بھرا ہوا۔
![]() |
علی |
تاہم، اس کا سچا جنون پانی کے لیے تھا۔ رحیم یار خان، اپنی زرعی بنیاد کے باوجود، اکثر پانی کی قلت کا شکار رہتا تھا۔ نہر کا قدیم نظام ناکارہ تھا، اور زیر زمین پانی کم ہو رہا تھا۔ علی گھنٹوں پرانی، سست بہتی نہر کے کنارے بیٹھ کر بہاؤ کا مشاہدہ کرتا، پانی کے ضیاع کو دیکھتا اور ایک بوسیدہ نوٹ بک میں خاکے بناتا۔ اس کے خیالات کو شروع میں ہلکی پھلکی تفریح اور پھر نرم شک و شبہات سے دیکھا گیا۔ اس کے والد کہتے، "علی بیٹے، یہ پرانے طریقے ہیں۔ انہوں نے نسلوں سے ہمارا ساتھ دیا ہے۔"
لیکن علی ثابت قدم تھا۔ اس نے ڈرپ اریگیشن، بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے، اور جدید پمپوں کی بات کی جو زیادہ مؤثر طریقے سے پانی نکال سکتے تھے۔ اس نے پینے کے پانی کے لیے ایک چھوٹا، مقامی واٹر پیوریفیکیشن سسٹم کا بھی خواب دیکھا، ایک ایسی عیش و آرام جو گاؤں میں واقعی موجود نہیں تھی۔ اس کی پہلی ٹھوس تجویز معمولی تھی: ان کے خاندان کے چھوٹے سے قطعہ زمین کے لیے ایک سادہ، کم لاگت والا بارش کے پانی کو جمع کرنے کا نظام۔ اس نے حساب لگایا، خاکے بنائے، اور التجا کی۔ بالآخر، اس کے والد نے، علی کے غیر متزلزل یقین سے تنگ آ کر، اسے اپنی زمین کا ایک چھوٹا سا کونا اور کچھ ناکارہ مواد استعمال کرنے کی اجازت دی۔
![]() |
واٹر پیوریفیکیشن سسٹم |
گاؤں والے، متجسس لیکن شک میں مبتلا ہو کر، دیکھتے رہے جب علی نے، چند چھوٹے بہن بھائیوں اور دوستوں کی مدد سے، خندقیں کھودیں، پائپ بچھائے اور ایک ابتدائی ذخیرہ ٹینک بنایا۔ اس سال پہلی مون سون کی بارشیں بہت زیادہ ہوئیں، اور سب کی حیرت کے لیے، علی کے نظام نے کئی ہفتوں تک نہر پر انحصار کو نمایاں طور پر کم کرنے کے لیے کافی پانی جمع کر لیا۔ یہ ایک چھوٹی فتح تھی، لیکن یہ ایک نظر آنے والی فتح تھی۔
حوصلہ پا کر، علی وہیں رکا نہیں۔ اس نے اپنی شامیں مطالعہ میں صرف کیں، اکثر مٹی کے تیل کے چراغ کی مدھم روشنی میں، پائیدار زراعت اور جدید آبپاشی کی تکنیکوں کے لیے گرانٹس کی تحقیق کرتا رہا۔ اس نے خط لکھے، فارم بھرے، اور یہاں تک کہ ڈسٹرکٹ آفس کا ایک مشکل سفر بھی کیا، لاتعداد مسترد اور دفتری رکاوٹوں کو برداشت کیا۔ ایسے دن بھی تھے جب ناامیدی اسے کھا جاتی، جب اس کے عزائم کی وسعت ناقابل تسخیر لگتی، اور "یہ ناممکن ہے" کی سرگوشیاں اس کے ذہن میں گونجتی تھیں۔
![]() |
ڈرپ اریگیشن سسٹم |
پھر بھی، اسے اپنے دادا کے الفاظ یاد تھے: "سب سے بڑی فصلیں سب سے زیادہ صبر والے بیجوں سے حاصل ہوتی ہیں۔" علی نے ان الفاظ میں، اپنی ماں کی غیر متزلزل حمایت میں، اور اس خاموش یقین میں طاقت پائی کہ ایک شخص، علم اور عزم سے مسلح ہو کر، واقعی فرق پیدا کر سکتا ہے۔
آخر کار، تقریباً دو سال کی انتھک کوشش کے بعد، ایک چھوٹی گرانٹ آ گئی۔ یہ پورے گاؤں کے پانی کے نظام میں انقلاب لانے کے لیے کافی نہیں تھی، لیکن یہ کسانوں کے ایک گروہ کے لیے کمیونٹی پر مبنی ڈرپ اریگیشن سسٹم کے لیے ایک پائلٹ پروجیکٹ کو فنڈ دینے کے لیے کافی تھی۔ علی نے، اب نوجوان گاؤں والوں کی ایک چھوٹی لیکن پرجوش ٹیم کے ساتھ، انتھک محنت کی۔ انہیں تکنیکی چیلنجز، کچھ پرانے کسانوں کی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا جو نئے طریقوں کو اپنانے میں ہچکچاتے تھے، اور یہاں تک کہ آلات کی خرابی بھی پیش آئی۔
اس سب کے باوجود، علی نے مثال قائم کی۔ وہ صرف ایک منصوبہ ساز نہیں تھا؛ وہ ایک کرنے والا تھا۔ اس نے اپنے ہاتھ گندے کیے، مسائل حل کیے، اور صبر سے فوائد کی وضاحت کی، ایک ایک کرکے کسان کو سمجھایا۔ آہستہ آہستہ، شک کرنے والوں نے نتائج دیکھنا شروع کر دیے: کم پانی استعمال ہوا، فصلیں صحت مند ہوئیں، اور یہاں تک کہ، کئی سالوں میں پہلی بار، کچھ خاندانوں کے لیے تھوڑا سا اضافی منافع بھی ہوا۔
![]() |
فصلیں |
علی کا اثر صرف پانی کے بارے میں نہیں تھا؛ یہ امید کے بارے میں تھا۔ اس نے اپنے گاؤں کو دکھایا کہ جدت صرف دور دراز کے شہروں کے لیے نہیں ہے، بلکہ یہ یہیں پر، ان کی اپنی ضروریات سے پیدا ہو کر اور ان کے اپنے لوگوں کے ذریعے پروان چڑھ کر پھل پھول سکتی ہے۔ اس نے ثابت کیا کہ سنگین چیلنجوں کے باوجود، ثابت قدمی، علم اور اپنے وژن پر غیر متزلزل یقین کے ساتھ، ایک عام نوجوان واقعی اپنی برادری کے منظر نامے کو تبدیل کر سکتا ہے، پانی کے ایک ایک قطرے، ایک ایک مشترکہ خیال، اور ایک ایک پرعزم قدم کے ساتھ۔ رحیم یار خان کا دھول بھرا گاؤں اب صرف گنے کے ساتھ ہی نہیں، بلکہ ترقی کی پرجوش روح کے ساتھ بھی کھلنے لگا تھا، یہ سب علی کے غیر متزلزل عزم کی بدولت تھا۔
کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں کوئی اور کہانی لکھوں، یا علی کے سفر کے کسی مخصوص پہلو کو مزید تفصیل سے بیان کروں؟