یوسف: ایک نادرا آفیسر کی کہانی
یوسف کی زندگی ایک گمنام دریا کی طرح تھی، پرسکون اور بے ہنگم۔ وہ ایک نادرا آفس میں پچھلے دس سال سے خدمات انجام دے رہا تھا۔ اس کا کام لوگوں کے شناختی کارڈ بنانا، ان کی معلومات کو درست کرنا اور انہیں ایک مکمل شہری کی حیثیت سے زندگی گزارنے کا موقع فراہم کرنا تھا۔ لیکن اس کی اپنی زندگی میں کچھ ایسا تھا جو اسے اکثر بے چین رکھتا تھا۔ ایک نامکمل کہانی، ایک ان سُلجھا راز۔
![]() |
یوسف |
یوسف ایک اصول پسند، دیانتدار اور محنتی شخص تھا۔ اس کے ساتھی اسے 'نادرا کا روبوٹ' کہتے تھے، کیونکہ وہ کبھی کسی غیر ضروری بات میں نہیں پڑتا تھا اور ہمیشہ اپنے کام میں مگن رہتا تھا۔ لیکن اس کے دل میں ایک نرم گوشہ تھا، ایک ایسا گوشہ جہاں اس کی ماں کی یادیں بسیرا کرتی تھیں۔ اس کی ماں نے اسے ہمیشہ سچائی اور انصاف کے راستے پر چلنے کی تلقین کی تھی۔
آفس میں روزانہ سینکڑوں لوگ آتے تھے۔ کچھ خوش، کچھ پریشان، کچھ غصے میں۔ یوسف سب کو ایک ہی نظر سے دیکھتا تھا، ایک شہری جس کو اس کی ضرورت ہے۔ ایک دن، ایک بوڑھی عورت آفس آئی۔ اس کے چہرے پر پریشانی اور تھکن کے آثار نمایاں تھے۔ اس نے یوسف کو بتایا کہ اس کا شناختی کارڈ گم ہو گیا ہے اور اس کے بغیر وہ اپنی پنشن نہیں لے پا رہی۔ یوسف نے اس کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ عورت کے کاغذات دیکھنے لگا۔ معمول کے مطابق کارروائی شروع کی لیکن ایک لمحے کو اس کی نظر بوڑھی عورت کے دیے گئے پرانے ایڈریس پر ٹھہر گئی۔ اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں، وہ ایڈریس وہی تھا جہاں یوسف اپنے بچپن میں رہتا تھا۔
اس نے عورت سے پوچھا، "بی بی، کیا آپ اس محلے میں رہتی تھیں جہاں اب آپ نے ایڈریس دیا ہے؟"
عورت نے جواب دیا، "ہاں بیٹا، میری ساری زندگی اسی محلے میں گزری ہے۔"
یوسف کے دل میں ایک عجیب سی لہر دوڑ گئی۔ وہ مزید معلومات حاصل کرنا چاہتا تھا، لیکن نادرا کے قواعد و ضوابط اس کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ اس نے عورت کو شناختی کارڈ کی تصدیق کے لیے چند دن بعد آنے کا کہا۔
یوسف رات بھر سو نہیں سکا۔ اس کے ذہن میں اپنے بچپن کی دھندلی یادیں تازہ ہونے لگیں۔ اسے یاد آیا کہ جب وہ بہت چھوٹا تھا، تو اس کے والد اچانک لاپتہ ہو گئے تھے۔ اس کی ماں نے اسے بتایا تھا کہ اس کے والد ایک حادثے میں فوت ہو گئے تھے، لیکن یوسف کو ہمیشہ کچھ عجیب سا محسوس ہوتا تھا۔ اب، اس بوڑھی عورت کا ایڈریس اس کی الجھن میں اضافہ کر رہا تھا۔
دو دن بعد، بوڑھی عورت دوبارہ آئی۔ اس کا شناختی کارڈ تیار ہو چکا تھا۔ جب یوسف اسے کارڈ دے رہا تھا، تو اس نے ہمت کر کے پوچھا، "بی بی، کیا آپ کو اس محلے میں کوئی یوسف نام کا بچہ یاد ہے؟ میرا نام یوسف ہے۔"
عورت نے اسے غور سے دیکھا، اس کی آنکھوں میں ایک لمحے کے لیے چمک آئی اور پھر اس نے کہا، "ہاں بیٹا، اس محلے میں ایک یوسف تھا، لیکن وہ تو بچپن میں ہی لاپتہ ہو گیا تھا۔ اس کے والدین بہت پریشان تھے۔"
یہ سن کر یوسف کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ وہ سمجھ گیا کہ یہ کوئی اتفاق نہیں ہو سکتا۔ اس نے عورت سے مزید تفصیلات پوچھنے کی کوشش کی، لیکن نادرا کے آفس میں اس طرح کی ذاتی گفتگو مناسب نہیں تھی۔ اس نے اپنے دل میں ایک منصوبہ بنایا۔
یوسف نے اگلے دن چھٹی لی اور اس پرانے محلے کی طرف روانہ ہو گیا۔ وہ محلہ اب کافی بدل چکا تھا، لیکن اسے اپنا پرانا گھر تلاش کرنے میں زیادہ مشکل نہیں ہوئی۔ گھر کا دروازہ بند تھا، اور ایسا لگ رہا تھا جیسے وہاں کوئی نہیں رہتا۔ اس نے آس پاس کے لوگوں سے پوچھا، تو ایک بزرگ نے اسے بتایا کہ اس گھر کے مالک اب بہت بوڑھے ہو چکے ہیں اور بیماری کی وجہ سے وہ کہیں اور شفٹ ہو گئے ہیں۔
یوسف نے ہار نہیں مانی۔ اس نے ہمت کر کے نادرا کے سسٹم میں پرانے ریکارڈز کو کھنگالنا شروع کیا۔ یہ ایک غیر معمولی کام تھا، اور اس کے لیے اسے بہت احتیاط کی ضرورت تھی۔ کئی گھنٹے کی محنت کے بعد، اسے ایک فائل ملی۔ ایک ایسی فائل جس میں اس کے والد کا ریکارڈ تھا۔ اس میں درج تھا کہ اس کے والد پر ایک بڑا فراڈ کا الزام تھا اور وہ ملک سے فرار ہو گئے تھے۔ لیکن یوسف کو ہمیشہ بتایا گیا تھا کہ اس کے والد فوت ہو گئے ہیں۔ یہ ایک بہت بڑا جھٹکا تھا!
یوسف نے مزید تحقیق کی اور اسے پتا چلا کہ اس کے والد دراصل پاکستان میں ہی چھپ کر رہ رہے تھے۔ انہوں نے اپنی شناخت تبدیل کر لی تھی اور ایک نئی زندگی گزار رہے تھے۔ اس نے نادرا کے ریکارڈز میں اپنی ماں کا پرانا ایڈریس بھی تلاش کیا، جو اس بوڑھی عورت کے ایڈریس سے ملتا جلتا تھا۔ یہ بوڑھی عورت دراصل اس کے والد کی بہن تھی۔ یوسف کا سر چکرانے لگا۔ اسے اپنی ماں پر غصہ بھی آیا کہ انہوں نے کیوں اس سے یہ سچ چھپایا؟
یوسف نے اس معاملے کو حل کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے اپنی دیانت داری اور پیشہ ورانہ مہارت کا استعمال کرتے ہوئے، اپنے والد کا نیا پتہ تلاش کر لیا۔ ایک دن وہ اپنے والد کے گھر پہنچ گیا۔ دروازہ کھٹکھٹایا، تو ایک عمر رسیدہ شخص باہر آیا۔ یوسف نے انہیں غور سے دیکھا، اس کے والد کی تصویر اس کے ذہن میں اب بھی تازہ تھی۔ یہ وہی شخص تھا۔
"میں یوسف ہوں، آپ کا بیٹا،" یوسف نے کہا، اس کی آواز میں گہرا درد اور ملال تھا۔
اس کے والد کے چہرے پر حیرت، خوف اور شرمندگی کے ملے جلے تاثرات تھے۔ انہوں نے یوسف کو اندر بلایا اور پھر سب کچھ بتایا۔ انہوں نے ایک بڑی غلطی کی تھی، انہیں ڈر تھا کہ وہ پکڑے جائیں گے، اس لیے انہوں نے اپنی شناخت چھپا لی۔ ان کی بیوی نے اپنے بیٹے کو سچ سے بچانے کے لیے جھوٹ بولا تھا۔
یوسف نے اپنے والد کو قانونی کارروائی کا سامنا کرنے کا مشورہ دیا۔ یہ ایک مشکل فیصلہ تھا، لیکن یوسف جانتا تھا کہ سچائی کو زیادہ دیر تک چھپایا نہیں جا سکتا۔ اس نے اپنے والد کی مدد کی کہ وہ قانون کے سامنے پیش ہوں اور اپنے کیے کی سزا بھگتیں۔ یہ اس کے لیے بھی ایک مشکل امتحان تھا، لیکن اس نے اپنی دیانت داری اور اصولوں کو برقرار رکھا۔
یوسف نے اپنی ماں سے بھی بات کی اور ان سے پوچھا کہ انہوں نے یہ راز کیوں چھپایا؟ اس کی ماں نے بتایا کہ وہ اسے تکلیف سے بچانا چاہتی تھی، اور وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کا بیٹا ایک فراڈیے کا بیٹا کہلائے۔ یوسف نے اپنی ماں کو سمجھایا کہ سچ کتنا بھی کڑوا ہو، اسے چھپانا نہیں چاہیے۔
اس واقعے نے یوسف کی زندگی کو یکسر بدل دیا۔ وہ صرف ایک نادرا آفیسر ہی نہیں رہا، بلکہ ایک ایسا بیٹا بن گیا جس نے اپنے خاندان کے بکھرے ہوئے دھاگوں کو سمیٹا اور سچائی کا ساتھ دیا۔ اس کا کام اب صرف شناختی کارڈ بنانا نہیں تھا، بلکہ لوگوں کو ان کی کھوئی ہوئی شناخت واپس دلانا بھی تھا۔ اور اس کی اپنی کھوئی ہوئی شناخت، ایک بیٹے کے طور پر، اسے مل چکی تھی۔ اس کے دل کا سسپنس اب ختم ہو چکا تھا۔