روشان خان: ایک مہربان وڈیرے اور وکیل کی کہانی

kidsstories
0

 روشان خان: ایک مہربان وڈیرے اور وکیل کی کہانی

روشان خان کا نام پورے علاقے میں عزت اور محبت کی پہچان تھا۔ وہ صرف ایک بڑے وڈیرے ہی نہیں تھے، بلکہ ایک انتہائی قابل اور نیک وکیل بھی تھے۔ ان کی زندگی دو مختلف دھاروں کا خوبصورت سنگم تھی: ایک طرف ان کی خاندانی وڈیرپن کی روایت تھی جو سخاوت اور رعایا پروری کی بنیاد پر قائم تھی، اور دوسری طرف ان کا پیشہ ورانہ علم تھا جسے وہ انصاف دلانے کے لیے استعمال کرتے تھے۔

والد روشان خان
والد روشا ن خان

روشان خان کے والد، جو آج بھی اپنے علاقے کے بزرگ اور رہنما تھے، ایک نہایت نیک اور رحم دل انسان تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی غریبوں کی فلاح و بہبود کے لیے وقف کر رکھی تھی۔ انہوں نے ہی روشن خان کو یہ سکھایا تھا کہ دولت اور اختیار کا اصل مقصد دوسروں کی خدمت کرنا ہے۔ والد کے اس نیک کام اور روشن خان کی تعلیم و تربیت نے مل کر انہیں ایک ایسا انسان بنایا جو طاقت اور نرم دلی کا بہترین امتزاج تھا۔

روشان خان جب شہر سے قانون کی ڈگری حاصل کر کے واپس آئے تو ان کے والد نے انہیں اپنی جاگیر کی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ وکالت کا کام بھی شروع کرنے کی اجازت دی۔ والد نے کہا، "بیٹا، تمہارا قلم اور تمہاری زبان اب غریبوں کا ہتھیار بننے چاہئیں۔" روشان خان نے اپنے والد کے مشورے پر عمل کیا اور اپنی حویلی میں ایک چھوٹا سا کمرہ قانونی مشورے کے لیے مختص کر دیا۔

بہت جلد ان کی شہرت ایک ایسے وکیل کی حیثیت سے پھیل گئی جو غریبوں اور بے سہارا لوگوں کے مقدمات بغیر فیس کے لڑتے تھے۔ وہ اکثر عدالت میں ایسے لوگوں کی طرف سے کھڑے ہوتے جن کی آواز دب جاتی تھی اور جنہیں انصاف کی کوئی امید نہیں ہوتی تھی۔ وہ اپنی وڈیرپن کی طاقت کو کبھی بھی قانونی لڑائیوں میں استعمال نہیں کرتے تھے، بلکہ وہ صرف قانون کے اصولوں اور سچائی کی بنیاد پر دلائل دیتے تھے۔

ایڈووکیٹ وڈیرے روشان خان
ایڈو وکییٹ وڈیرے روشان خان 

ایک مرتبہ ایک غریب کسان کو اس کے امیر زمیندار نے دھوکہ دے کر اس کی زمین پر قبضہ کر لیا۔ کسان روتا ہوا روشان خان کے پاس آیا۔ اس کے پاس نہ پیسے تھے اور نہ کوئی ثبوت۔ روشان خان نے اس کا مقدمہ لڑنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے راتوں کو جاگ کر اس کیس کا مطالعہ کیا اور عدالت میں ایسے ٹھوس دلائل پیش کیے کہ امیر زمیندار کو اپنی غلطی تسلیم کرنی پڑی۔ کسان کو نہ صرف اس کی زمین واپس ملی، بلکہ اسے ہونے والے نقصان کا ہرجانہ بھی دلوایا گیا۔

روشان خان اور ان کے والد دونوں مل کر اپنے علاقے کی ترقی کے لیے کام کرتے تھے۔ انہوں نے ایک وسیع اسکول قائم کیا جہاں تمام بچوں کو مفت تعلیم دی جاتی تھی۔ یہ اسکول صرف ایک عمارت نہیں تھی، بلکہ امید کا ایک مرکز تھا جہاں غریبوں کے بچے بھی علم کی روشنی سے اپنی تقدیر بدل رہے تھے۔ والد کا وژن تھا کہ کوئی بچہ ان کے علاقے میں ناخواندہ نہ رہے۔

ایک سال علاقے میں شدید خشک سالی آئی۔ فصلیں تباہ ہو گئیں اور لوگ فاقہ کشی کے دہانے پر پہنچ گئے۔ ایسے میں روشان خان اور ان کے والد نے اپنے گوداموں کے دروازے سب کے لیے کھول دیے اور اعلان کیا کہ کوئی بھی بھوکا نہیں رہے گا۔ روشان خان نے اپنی قانونی اور سماجی حیثیت کو بروئے کار لاتے ہوئے حکومت سے بھی مدد کی اپیل کی اور اپنے علاقے کے لوگوں کے لیے امدادی پیکجز حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ ان کی اس دوہری حکمت عملی نے لوگوں کو نہ صرف فوری مدد فراہم کی بلکہ مستقبل کے لیے بھی انہیں مضبوط کیا۔

روشان خان اور ان کے والد اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ انصاف، رحم دلی اور علم کے بغیر کوئی بھی معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا۔ وہ دونوں ایک دوسرے کے معاون اور ایک دوسرے کی طاقت تھے۔ والد اپنی دانائی اور تجربے سے فیصلے کرتے تھے، جبکہ روشان خان اپنے قانونی علم سے انہیں عملی جامہ پہناتے تھے۔ ان دونوں کی مشترکہ o کو ہمیشہ دوسروں کی خدمت کے لیے استعمال کیا۔ یہ وہ وڈیرے اور وکیل تھے جنہوں نے یہ ثابت کر دیا کہ اصلی طاقت تلوار یا لاٹھی میں نہیں بلکہ دل کی نرمی اور قانون کی کتاب میں ہوتی ہے۔


ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !