ڈاکٹر سردار دانیال خان: ایک پرعزم سفر کی داستان

kidsstories
0

 ڈاکٹر سردار دانیال خان: ایک پرعزم سفر کی داستان


زندگی کے افق پر کچھ ستارے ایسے چمکتے ہیں جن کی روشنی سے نہ صرف ان کی اپنی زندگی بلکہ دوسروں کی زندگیاں بھی منور ہو جاتی ہیں۔ ایسی ہی ایک مثال ڈاکٹر سردار دانیال خان ہیں، جن کی کہانی ایک عام سے نوجوان کی غیر معمولی جدوجہد اور کامیابی کی داستان ہے۔ یہ کہانی صرف ایک ڈاکٹر بننے کی نہیں، بلکہ انسانیت کی خدمت کے جذبے، مشکل حالات سے لڑنے کی ہمت اور اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کے عزم کی ہے۔


ڈاکٹر سردار دانیال خان
ڈاکٹر سردار دانیال خان 


ذاکٹر دانیال کا تعلق ایک ایسے دور دراز گاؤں سے تھا جہاں زندگی کی بنیادی سہولیات کا تصور بھی مشکل تھا۔ ان کے والد ایک معمولی کسان تھے، جن کی محدود آمدنی گھر کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے کافی نہیں ہوتی تھی۔ بچپن میں ہی دانیال نے یہ حقیقت دیکھ لی تھی کہ ان کے گاؤں میں صحت کی سہولیات کا فقدان ہے۔ بیماریاں اور وبائیں بچوں کی جان لے لیتیں، اور لوگ علاج کے لیے کئی کئی میل دور شہروں کا سفر کرنے پر مجبور تھے۔ اسی بچپن میں، جب وہ اپنے گاؤں کے بزرگوں اور بچوں کو تکلیف میں دیکھتے تھے، تو ان کے دل میں ایک خواب نے جنم لیا۔ ایک ایسا خواب جس میں وہ خود کو سفید کوٹ پہنے اپنے لوگوں کا مسیحا دیکھتے تھے۔ انہوں نے ٹھان لیا تھا کہ وہ ڈاکٹر بنیں گے، اور اپنے گاؤں کی تقدیر بدلیں گے۔


لیکن یہ خواب محض ایک خیال نہیں تھا۔ اس کو حقیقت میں بدلنے کے لیے بہت سی قربانیاں دینا تھیں۔ میٹرک تک کی تعلیم انہوں نے اپنے گاؤں کے ایک ٹوٹے پھوٹے سکول میں حاصل کی۔ کتابیں اور کاپیاں خریدنا ان کے لیے ایک بڑا مسئلہ تھا۔ وہ اپنے بڑے بھائیوں کی پرانی کتابیں استعمال کرتے اور دوستوں سے نوٹس لے کر پڑھتے تھے۔ راتوں کو بجلی نہیں ہوتی تھی، تو وہ لالٹین کی مدھم روشنی میں گھنٹوں پڑھائی کرتے تھے۔ ان کی والدہ ان کی ہمت بندھاتی تھیں اور ہمیشہ ان سے کہتی تھیں کہ "بیٹا، تمہاری محنت کبھی رائیگاں نہیں جائے گی۔" انہی الفاظ نے ان کو حوصلہ دیا۔


انٹرمیڈیٹ کے امتحانات میں انہوں نے شاندار کارکردگی دکھائی اور پورے ضلع میں ٹاپ کیا۔ یہ ان کی محنت اور لگن کا پہلا پھل تھا۔ اس کامیابی کے بعد ان کے سامنے سب سے بڑا چیلنج میڈیکل کالج میں داخلہ تھا۔ ان کے والد کے پاس داخلے اور ہاسٹل کے اخراجات کے لیے پیسے نہیں تھے۔ یہ وقت دانیال کے لیے سب سے زیادہ مشکل تھا۔ مایوسی ان کو گھیرنے لگی تھی، لیکن ایک بار پھر ان کے اندر کی آواز نے انہیں ہمت دی۔ انہوں نے اپنے ایک دوست کے ساتھ مل کر شہر میں ایک چھوٹی سی ملازمت اختیار کی اور کچھ پیسے جمع کیے۔ آخرکار، ایک مقامی مخیر شخصیت نے ان کی مدد کی اور ان کا داخلہ ایک معروف میڈیکل کالج میں ہو گیا۔


میڈیکل کالج کا سفر بھی آسان نہیں تھا۔ شہر کے امیر اور پڑھے لکھے گھرانوں کے طلباء کے درمیان وہ اکثر خود کو اکیلا محسوس کرتے تھے۔ ان کا رہن سہن سادہ تھا، جبکہ ان کے ساتھیوں کا لائف سٹائل بہت مختلف تھا۔ لیکن ان کی آنکھوں میں اپنے مقصد کی چمک ہمیشہ زندہ رہی۔ وہ جانتے تھے کہ وہ یہاں کیوں آئے ہیں۔ انہوں نے اپنی تمام تر توجہ اپنی تعلیم پر مرکوز کر دی اور دن رات ایک کر دیا۔ وہ کالج کی لائبریری میں گھنٹوں بیٹھ کر پڑھتے اور پریکٹیکل میں بھی سب سے آگے رہتے۔ ان کی قابلیت اور محنت نے جلد ہی تمام اساتذہ کو ان کا گرویدہ بنا لیا۔ وہ نہ صرف ایک بہترین طالب علم تھے بلکہ ایک نرم دل اور رحم دل انسان بھی تھے۔ ان کے ساتھی جب کبھی کسی مشکل میں ہوتے، وہ ان کی مدد کے لیے ہمیشہ تیار رہتے تھے۔


جب وہ ڈاکٹر بن کر فارغ ہوئے تو انہیں کئی بڑے شہروں کے ہسپتالوں سے ملازمت کی پیشکشیں ہوئیں۔ یہ ان کے لیے ایک ایسا موقع تھا جہاں وہ آرام دہ اور پر آسائش زندگی گزار سکتے تھے۔ لیکن ان کے دل میں اپنے گاؤں کے لوگوں کی تکلیف کا احساس ہمیشہ زندہ رہا تھا۔ انہوں نے اپنی تمام پیشکشیں ٹھکرا دیں اور ایک بڑا فیصلہ کیا۔ انہوں نے اپنے گاؤں واپس جا کر ایک چھوٹا سا کلینک کھولنے کا فیصلہ کیا۔ ان کے دوستوں اور رشتہ داروں نے انہیں بہت سمجھایا کہ وہ اپنے مستقبل کو تباہ کر رہے ہیں، لیکن وہ اپنے ارادے کے پکے تھے۔


واپس گاؤں آ کر انہوں نے اپنے والد کے پرانے گھر کے ایک حصے میں ایک چھوٹا سا کلینک کھولا۔ شروع میں ان کے پاس نہ کوئی جدید مشینری تھی اور نہ ہی کوئی بڑا سرمایہ۔ مگر ان کے پاس ایک بڑا دل اور خدمت کا لازوال جذبہ تھا۔ وہ غریب مریضوں کا مفت علاج کرتے، اور جن کے پاس دواؤں کے پیسے نہیں ہوتے تھے، وہ انہیں اپنی جیب سے پیسے دیتے تھے۔ رات کی گہری تاریکی میں بھی جب کوئی مریض ان کے دروازے پر دستک دیتا تو وہ کبھی انکار نہیں کرتے تھے۔ ان کی نرم مزاجی، شفقت اور علاج میں مہارت کی وجہ سے ان کی شہرت دور دور تک پھیلنے لگی۔ لوگ انہیں "ڈاکٹر صاحب" نہیں بلکہ "مسیحا" کے نام سے پکارنے لگے۔


آج ڈاکٹر سردار دانیال خان اپنے علاقے کے لیے ایک روشنی کی کرن بن چکے ہیں۔ ان کی کوششوں سے اب گاؤں میں ایک چھوٹا ہسپتال بھی قائم ہو چکا ہے، جہاں غریبوں کو بہتر علاج کی سہولیات میسر ہیں۔ ان کی کہانی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ کامیابی کا سفر صرف دولت اور شہرت حاصل کرنے کا نام نہیں، بلکہ انسانیت کی خدمت اور اپنے خوابوں کو پورا کرنے کا بھی نام ہے۔ انہوں نے اپنی محنت، لگن اور عزم سے یہ ثابت کر دیا کہ اگر انسان کے ارادے مضبوط ہوں، تو کوئی بھی رکاوٹ اس کے راستے میں حائل نہیں ہو سکتی۔


ڈاکٹر دانیال کی کہانی ہم سب کے لیے ایک سبق ہے کہ اپنے مقاصد کو دل میں زندہ رکھیں، مشکلات سے گھبرائیں نہیں اور ہمیشہ انسانیت کی خدمت کو اولیت دیں۔ کیا آپ بھی اپنے اندر کے ڈاکٹر دانیال کو پہچان سکتے ہیں؟


ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !