.
عزمِ گبول: ریت سے اُگنے والے پھول
بہت سال پہلے کی بات ہے، ایک وسیع اور خشک وادی کے دل میں، ایک قبیلہ آباد تھا جسے گبول کہا جاتا تھا۔ یہ وادی صحرا کے بے رحم کناروں پر بسی تھی، جہاں سورج کی تپش نے زمین کو سنگلاخ اور آسمان کو بے رنگ کر رکھا تھا۔ سالوں سے بارش کے قطرے اس زمین کو چھو کر نہیں گزرے تھے اور زندگی کی رمق محض ایک خواب بن کر رہ گئی تھی۔ قبیلے کے لوگ، اگرچہ محنتی اور جفاکش تھے، لیکن ان کی محنت کا صلہ نہ ہونے کے برابر تھا۔ کھیتوں میں بیج ڈالنے کے بعد وہ صرف آسمان کی طرف حسرت سے دیکھتے رہتے، اور پانی کے لیے انہیں کئی دنوں کا سفر طے کر کے دور دراز کے چشموں تک جانا پڑتا تھا۔
![]() |
پانی |
قبیلے کا سردار، رحیم خان، ایک بزرگ اور دانا شخص تھا۔ اس کی کمر اگرچہ عمر کے بوجھ سے جھک چکی تھی، لیکن اس کی آنکھوں میں ایک ایسی روشنی تھی جو امید کی لو کی طرح کبھی مدھم نہیں ہوتی تھی۔ ایک شام، جب قبیلے کے سارے لوگ تھکن اور مایوسی کے عالم میں اپنے خیموں کے گرد جمع تھے، رحیم خان نے سب کو اکٹھا کیا۔ خاموشی چھا گئی، اور ہر نظر اس کی طرف اٹھ گئی۔ اس نے ایک گہری سانس لی اور اپنی گونجدار آواز میں کہا، "میرے پیارے گبول! ہم نے اس زمین پر برسوں کی مشقت کی ہے، مگر ہم نے کبھی اس کا دل نہیں جیتا۔ ہم نے ہمیشہ حالات سے سمجھوتہ کیا ہے، لیکن آج سے ہم فیصلہ کریں گے کہ حالات کو تبدیل کریں گے۔"
اس کی بات نے قبیلے کے نوجوانوں میں ایک نئی روح پھونکی۔ ان میں ایک نوجوان لڑکا، جس کا نام علی تھا، سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ علی، جو اپنے قبیلے کے لیے کچھ کرنا چاہتا تھا، سردار رحیم خان کے پاس آیا اور کہا، "بابا جان، آپ کا حکم سر آنکھوں پر۔ بتائیے ہمیں کیا کرنا ہے؟" سردار نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور مسکرا کر کہا، "بیٹا، ہمیں سب سے پہلے پانی کا ایک مستقل ذریعہ ڈھونڈنا ہے۔ میں نے سنا ہے کہ اس پہاڑی کے دوسری طرف کوئی پرانا چشمہ ہو سکتا ہے، لیکن وہاں تک پہنچنا آسان نہیں۔"
علی نے اپنے چند بہادر دوستوں کے ساتھ اگلے ہی دن سفر شروع کر دیا۔ کئی دنوں تک وہ تپتی ہوئی ریت اور چٹانوں پر چلتے رہے۔ ان کے پاس کھانے پینے کا سامان کم تھا، اور تھکن ان کے قدموں کو بوجھل کر رہی تھی۔ کئی بار ان کا دل چاہا کہ وہ واپس لوٹ جائیں، لیکن سردار کی باتیں اور اپنے قبیلے کی حالت ان کو آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتی رہیں۔ آخرکار، چوتھے دن، ایک پہاڑی کے دامن میں انہیں ایک چھوٹا سا، پتھروں میں چھپا ہوا چشمہ نظر آیا۔ اس کا پانی دھیرے دھیرے بہہ رہا تھا۔ یہ اتنا بڑا نہیں تھا کہ پورے قبیلے کی ضرورت پوری کر سکے، لیکن یہ ایک آغاز تھا۔ یہ ایک امید تھی۔
واپسی پر، علی اور اس کے دوستوں نے پورے قبیلے کو یہ خوشخبری سنائی۔ قبیلے میں جشن کا سماں بندھ گیا۔ اگلے ہی دن، سب نے مل کر ایک بڑا منصوبہ بنایا۔ مردوں نے پہاڑی سے وادی تک ایک نہر کھودنے کا کام شروع کیا۔ یہ ایک مشکل ترین کام تھا۔ ریت میں کھدائی کرنا اور پتھروں کو ہٹانا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ کبھی ان کے ہاتھ زخمی ہو جاتے، کبھی ان کے کندھے درد سے پھٹتے، لیکن کوئی بھی پیچھے نہیں ہٹا۔ عورتیں اور بچے ان کے لیے کھانا اور پانی لاتے، اور انہیں حوصلہ دیتے۔ یہ ایک ایسا اتحاد تھا جو اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا تھا۔ ہر ایک فرد کا دل صرف ایک ہی دھڑکن سے دھڑک رہا تھا: اپنے قبیلے کے لیے زندگی لانا۔
مہینوں کی بے مثال محنت کے بعد، ایک دن ایک معجزہ ہوا۔ پتھروں کے درمیان سے بہتا ہوا پانی، کچی نہر سے ہوتا ہوا، وادی کے خشک سینے تک پہنچ گیا۔ جب پانی کی پہلی بوند زمین پر گری، تو یوں لگا جیسے برسوں کی پیاس بجھ گئی ہو۔ قبیلے کے لوگ آنسوؤں اور خوشی کے ملے جلے جذبات کے ساتھ ایک دوسرے کو گلے لگا رہے تھے۔ یہ پانی ان کے خون پسینے کا ثمر تھا۔ انہوں نے فورا اپنے کھیتوں میں بیج بوئے۔ جہاں کبھی صرف ریت تھی، وہاں اب سبز پودے سر اٹھا رہے تھے۔
گبول قبیلے نے صرف اپنی زمین کو ہی سرسبز نہیں کیا، بلکہ انہوں نے خود کو بھی بدل دیا۔ انہوں نے پانی کو محفوظ کرنے کے نئے طریقے سیکھے، اپنے بچوں کو تعلیم دینا شروع کیا تاکہ آنے والی نسلیں ان جیسی مشکلات کا سامنا نہ کریں۔ انہوں نے اپنے گھروں کو مضبوط بنایا اور ایک دوسرے کی مدد کے لیے ہمیشہ تیار رہے۔ ان کی کہانی صرف ایک قبیلے کی کامیابی کی نہیں تھی، بلکہ یہ اس بات کی علامت بن گئی تھی کہ اتحاد، عزم اور محنت سے ہر ناممکن کام ممکن ہو سکتا ہے۔ وہ بنجر زمین جس پر کبھی کوئی پودا نہیں اگتا تھا، اب گبول قبیلے کے عزم اور محنت سے لہلہانے والی فصلوں کا گواہ بن چکی تھی۔ انہوں نے ثابت کر دیا تھا کہ سچی لگن اور مستقل جدوجہد ہو تو انسان ریت سے بھی پھول اُگا سکتا ہے۔