زینب کی کہانی: روشنی کی کرن
ایک خوبصورت شہر میں، جہاں ہر طرف رنگین روشنیاں پھیلی رہتی تھیں اور زندگی کی چہل پہل تھی، زینب نام کی ایک لڑکی رہتی تھی. وہ اپنے دل میں ایک خاص خواب لیے پھرتی تھی – وہ اپنے شہر کو مزید خوبصورت بنانا چاہتی تھی، خاص طور پر ان جگہوں کو جہاں غربت اور بے گھری عام تھی. مگر اس کا سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ وہ خود کو بہت چھوٹا اور اکیلا محسوس کرتی تھی. اسے لگتا تھا کہ ایک اکیلی لڑکی اتنے بڑے مسائل کو کیسے حل کر سکتی ہے
![]() |
زنیب |
زینب اکثر شہر کے ایسے حصوں میں جاتی جہاں غریب لوگ رہتے تھے. وہ دیکھتی کہ بچے کچرے کے ڈھیروں کے پاس کھیلتے ہیں، لوگ بے بسی کی حالت میں فٹ پاتھوں پر سوتے ہیں، اور صفائی کا کوئی انتظام نہیں. یہ سب دیکھ کر اس کا دل دکھتا، مگر وہ سوچتی، "میں کیا کر سکتی ہوں؟ میرے پاس نہ پیسے ہیں، نہ طاقت، اور نہ ہی کوئی بڑا عہدہ."
اس کے والدین، جو بہت نیک دل انسان تھے، زینب کی پریشانی سمجھتے تھے. اس کی والدہ نے ایک دن اسے پاس بلایا اور پیار سے کہا، "بیٹی، کیا تم جانتی ہو کہ ایک چھوٹی سی چنگاری بھی بڑے سے بڑے اندھیرے کو روشن کر سکتی ہے؟ تم اپنی ذات میں ایک روشنی کی کرن ہو. اہم یہ نہیں کہ تم کتنی بڑی ہو، بلکہ یہ ہے کہ تمہارا ارادہ کتنا مضبوط ہے."
والدہ نے اسے ایک پرانی کہانی سنائی کہ کیسے ایک چھوٹے سے پرندے نے اپنی چونچ میں پانی کا ایک قطرہ لے کر جنگل کی آگ بجھانے کی کوشش کی. اگرچہ وہ آگ بجھا نہیں سکا، مگر اس کے عزم نے دوسرے پرندوں کو بھی ہمت دی اور سب نے مل کر آگ بجھا دی. "بیٹی، فرق اس سے نہیں پڑتا کہ تم کتنا بڑا کام کر رہی ہو، بلکہ اس سے پڑتا ہے کہ تم کتنی نیت اور لگن سے کام کر رہی ہو."
زینب نے اپنی والدہ کی بات سنی اور اس کے دل میں امید کی ایک نئی شمع روشن ہوئی. اس نے فیصلہ کیا کہ وہ چھوٹے قدموں سے ہی سہی، مگر آغاز ضرور کرے گی. اس نے سب سے پہلے اپنے گھر سے پرانی کتابیں اور کھلونے جمع کیے جو اب اس کے کام کے نہیں تھے. پھر اس نے اپنی سہیلیوں اور پڑوسیوں سے بات کی اور ان سے بھی ایسا ہی کرنے کی درخواست کی. بہت سے لوگوں نے اسے دیکھ کر اپنے گھروں سے سامان دینا شروع کر دیا.
اس نے ایک چھوٹی سی لائبریری اور کھیل کا کونہ بنانے کا فیصلہ کیا، جو شہر کے ایک غریب علاقے میں تھا. پہلے تو اسے ہنسی کا سامنا کرنا پڑا. لوگوں نے کہا، "اس سے کیا ہوگا؟ ایک چھوٹی سی لائبریری سے غربت ختم نہیں ہو جائے گی." مگر زینب نے ہمت نہیں ہاری. اس نے اپنی لگن سے جگہ صاف کی، چند پرانی لکڑی کی پیٹیوں کو کرسیوں میں بدلا اور کتابوں کو ترتیب دیا.
دھیرے دھیرے، بچے اس لائبریری کی طرف آنے لگے. انہیں مفت میں کتابیں پڑھنے کو ملیں، انہیں کھیلنے کے لیے کھلونے ملے، اور سب سے اہم بات یہ کہ انہیں ایک محفوظ اور خوشگوار ماحول ملا. زینب نے خود ان بچوں کو پڑھانا شروع کیا اور انہیں صفائی کی عادتیں سکھائیں. وہ بچوں کو کہانیاں سناتی اور ان کے چہروں پر مسکراہٹ دیکھ کر اسے بے پناہ خوشی ہوتی.
کچھ عرصے بعد، گاؤں کے دوسرے لوگوں نے بھی زینب کے کام کو سراہنا شروع کیا. کچھ رضاکار اس کے ساتھ شامل ہو گئے. ایک مقامی تاجر نے اسے فرنیچر دیا، اور کچھ لوگوں نے کھانے پینے کی اشیاء فراہم کرنا شروع کر دیں. وہ چھوٹی سی لائبریری اب ایک مکمل کمیونٹی سینٹر میں بدل گئی تھی، جہاں نہ صرف بچے تعلیم حاصل کرتے تھے بلکہ انہیں صحت اور حفظان صحت کے بارے میں بھی سکھایا جاتا تھا.
زینب نے اپنے چھوٹے سے قدم سے ایک بہت بڑی تبدیلی کی بنیاد رکھی تھی. اس نے یہ ثابت کر دیا کہ ایک شخص، چاہے وہ کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو، اپنے عزم اور لگن سے پورے معاشرے کو متاثر کر سکتا ہے. اس نے روشنی کی ایک ایسی کرن جلائی تھی جو اب پورے شہر کو روشن کر رہی تھی.
زینب کی کہانی ہمیں یہ بتاتی ہے کہ کسی بھی بڑے کام کو شروع کرنے کے لیے بڑے وسائل کی نہیں، بلکہ بڑے دل اور مضبوط ارادے کی ضرورت ہوتی ہے. کبھی بھی یہ نہ سوچیں کہ آپ اکیلے کچھ نہیں کر سکتے. آپ کا ایک چھوٹا سا قدم بھی بہت بڑی تبدیلی کا آغاز بن سکتا ہے. کیا آپ بھی اپنے اندر کی زینب کو جگانے کے لیے تیار ہیں؟