خالہ سکینہ: چراغِ اُمید
خالہ سکینہ ایک عام سی خاتون تھیں جو ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہتی تھیں۔ ان کی زندگی مشکلات سے بھری تھی، جیسے کسی پرانے گھڑے میں چمکتے پتھر۔ انہوں نے کم عمری میں شادی کی، شوہر کی آمدنی کم تھی، اور بچوں کی پرورش ایک چیلنج تھا۔ لیکن خالہ سکینہ نے کبھی بھی اپنے کندھے نہیں جھکائے، بلکہ وہ ہر روز ایک نئی امید کے ساتھ اٹھتی تھیں۔ ان کی مسکراہٹ ان کی روح کی طاقت کا عکس تھی۔
![]() |
خالہ سکینہ |
جب زندگی نے آزمایا
خالہ سکینہ کی زندگی میں ایک طوفان تب آیا جب ان کے شوہر کو ایک اچانک بیماری نے گھیر لیا۔ خاندان کی معیشت بری طرح متاثر ہوئی۔ گھر میں فاقے ہونے لگے، اور بچوں کی آنکھوں میں بھوک صاف دکھائی دیتی تھی۔ یہ ایسا وقت تھا جب کوئی بھی ہمت ہار جاتا، مگر خالہ سکینہ نے خود کو سنبھالا اور فیصلہ کیا کہ وہ ہار نہیں مانیں گی۔ انہوں نے سوچا، "اگر میں ٹوٹ گئی تو میرے بچے کیا کریں گے؟"
ایک نیا سفر
انہوں نے اپنے پرانے ہنر پر غور کیا، جو گاؤں کی خواتین میں مشہور تھا۔ خالہ سکینہ اپنے ہاتھ کے بنے اچار اور مربوں کے لیے جانی جاتی تھیں۔ ان کے اچار کا ذائقہ اتنا خاص تھا کہ ہر کوئی اس کی تعریف کرتا تھا۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے اس ہنر کو استعمال کرتے ہوئے اچار اور مربے بنا کر بیچیں گی۔ یہ کوئی آسان کام نہیں تھا، کیونکہ ان کے پاس نہ تو پیسے تھے اور نہ ہی کوئی دکان۔
انہوں نے اپنے اچار کو سب سے پہلے اپنے ہمسایوں اور رشتے داروں کو فروخت کرنا شروع کیا۔ ان کے اچار کی شہرت تیزی سے گاؤں اور پھر قریبی قصبے میں پھیل گئی۔ خالہ سکینہ صبح سویرے اٹھتیں، اچار بناتیں، اور پھر پیدل قریبی بازار جاتیں، جہاں وہ زور زور سے آوازیں لگا کر اپنا سامان بیچتیں۔ دھوپ ہو یا بارش، انہوں نے کبھی ایک بھی دن کا ناغہ نہیں کیا۔
مشکلات سے کامیابی تک
ان کی محنت اور لگن رنگ لائی۔ رفتہ رفتہ ان کا کام بڑھنے لگا۔ جو بھی آمدنی ہوتی، اس کا کچھ حصہ گھر چلانے کے لیے رکھتیں اور باقی اپنے کاروبار میں دوبارہ لگاتیں۔ آخرکار، انہوں نے ایک چھوٹی سی دکان کرائے پر لے لی اور گاؤں کی کچھ دوسری خواتین کو بھی اپنے ساتھ کام پر رکھ لیا۔ اب خالہ سکینہ صرف ایک عام خاتون نہیں تھیں، بلکہ ایک کامیاب کاروباری خاتون اور دوسروں کے لیے امید کی کرن بن چکی تھیں۔
ایک زندہ مثال
خالہ سکینہ کی کہانی پورے گاؤں میں زبان زدِ عام تھی۔ وہ صرف اچار بنانے والی خالہ نہیں تھیں، بلکہ ہمت، حوصلے اور عود اعتمادی کی ایک جیتی جاگتی مثال بن گئیں۔ ان کی کامیابی نے بہت سی دوسری خواتین کو بھی ترغیب دی کہ وہ اپنی مشکلات کا سامنا کریں اور اپنے ہنر کو استعمال کر کے خود مختار بنیں۔
خالہ سکینہ آج بھی اپنے کام میں مصروف ہیں، لیکن اب ان کے چہرے پر ایک خاص چمک ہے، جو ان کی کامیابی کی عکاسی کرتی ہے۔ ان کی کہانی یہ ثابت کرتی ہے کہ اگر انسان سچے دل سے محنت کرے اور مشکلات کے سامنے جھکے نہیں، تو کوئی بھی خواب ناممکن نہیں ہوتا۔ ان کا ایمان تھا کہ خدا محنت کرنے والوں کا ساتھ دیتا ہے، اور اسی ایمان نے انہیں اس مقام تک پہنچایا۔