کریم بس ڈرائیور: ایک پراسرار سفر
کریم ایک عام سا بس ڈرائیور تھا، جو روزانہ صبح سویرے اٹھ کر اپنی بس نمبر 427 لے کر شہر کی سڑکوں پر نکل پڑتا تھا۔ اس کی زندگی ایک مقررہ معمول کے گرد گھومتی تھی – گھر سے ڈپو، ڈپو سے روٹ، اور پھر واپس گھر۔ لیکن کریم کے اندر ایک عجیب سی بے چینی تھی۔ وہ ہمیشہ کچھ غیر معمولی تلاش میں رہتا تھا، کچھ ایسا جو اس کی یکسانیت سے بھری زندگی کو ایک نیا موڑ دے سکے۔
![]() |
کریم |
ایک سردیوں کی رات، شہر پر گہری دھند چھائی ہوئی تھی اور معمول سے کم مسافر بس میں تھے۔ کریم اپنی آخری ٹرپ پر تھا اور بس تقریباً خالی تھی۔ صرف ایک ادھیڑ عمر کی خاتون، جس نے گہرا شال اوڑھا ہوا تھا، بالکل آخری سیٹ پر بیٹھی تھی۔ اس کا چہرہ دھند میں واضح نہیں تھا، بس اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک دکھائی دے رہی تھی۔
جب بس شہر کے آخری اسٹاپ پر پہنچی، تو وہ خاتون اٹھ کر کریم کے پاس آئی۔ "بیٹا، کیا تم مجھے تھوڑا اور آگے چھوڑ سکتے ہو؟" اس نے دھیمی آواز میں کہا، "میرا گھر تھوڑا اندر ہے اور اس وقت کوئی رکشہ نہیں مل رہا۔" کریم نے پہلے تو ہچکچایا۔ یہ اس کے روٹ کا حصہ نہیں تھا، لیکن اس خاتون کی آنکھوں میں ایک ایسی بے بسی تھی کہ وہ انکار نہ کر سکا۔ "ٹھیک ہے امّاں،" کریم نے کہا، "آ جائیں۔"
بس ایک ویران اور تنگ گلی میں مڑ گئی۔ دھند اور گہری ہو گئی تھی اور بس کی ہیڈلائٹس بھی راستے کو پوری طرح روشن نہیں کر پا رہی تھیں۔ جیسے جیسے وہ آگے بڑھ رہے تھے، کریم کو ایک عجیب سی بے چینی محسوس ہونے لگی۔ سڑک کے دونوں جانب پرانے اور ویران مکانات تھے، جن میں سے کوئی روشنی نہیں آ رہی تھی۔ اسے لگا جیسے کوئی اس کا پیچھا کر رہا ہو، یا اسے دیکھ رہا ہو۔
آخرکار، خاتون نے ایک پرانے، تاریک گھر کے سامنے بس روکنے کو کہا۔ "یہاں،" اس نے کہا، اور کرائے سے زیادہ پیسے کریم کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے بولی، "تمہاری ایمانداری اور مہربانی کا شکریہ بیٹا، تم نے آج میری بہت مدد کی۔" وہ خاتون بس سے اتر کر دھند میں غائب ہو گئی۔
کریم نے واپس مڑنے کے لیے بس موڑی، لیکن اس کی نظر اس گھر کی کھڑکی پر پڑی جہاں وہ خاتون گئی تھی۔ کھڑکی پر ایک سایہ جھلک رہا تھا۔ ایسا لگا جیسے وہی خاتون کھڑی ہو، لیکن اس بار وہ مسکرا نہیں رہی تھی، بلکہ اس کی آنکھوں میں ایک خوفناک چمک تھی جو کریم نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ کریم کو لگا جیسے وہ اسے گھور رہی ہو۔ اس کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔
اس رات کریم کو نیند نہیں آئی۔ اگلے دن جب وہ ڈپو پہنچا، تو اس نے اپنے ایک پرانے ساتھی ڈرائیور، اکرم سے رات کا واقعہ سنایا۔ اکرم نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔ "کیا کہہ رہے ہو کریم؟" اکرم نے کہا، "اس گلی میں کوئی گھر نہیں ہے۔ وہ تو ایک پرانی فیکٹری کی زمین ہے جو کئی سال پہلے جل کر راکھ ہو گئی تھی۔ وہاں کوئی نہیں رہتا۔"
کریم کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا۔ اس نے جلدی سے اپنی بس نمبر 427 کی جانچ پڑتال کی، اور اسے جھٹکا لگا۔ پچھلی سیٹ کے نیچے، جہاں وہ خاتون بیٹھی تھی، اسے ایک چھوٹا سا چمڑے کا بٹوہ ملا۔ کریم نے اسے کھولا، اور اس میں ایک بہت پرانا، پیلے رنگ کا اخبار کا تراشہ تھا۔ تراشے میں ایک خبر تھی: "چند سال قبل ایک خوفناک آگ نے ایک بس ڈرائیور اور اس کے مسافروں کو نگل لیا، جن میں ایک ادھیڑ عمر کی خاتون بھی شامل تھی جو آخری سیٹ پر بیٹھی تھی۔" تاریخ دیکھ کر کریم کے پیروں تلے زمین نکل گئی۔ یہ حادثہ ٹھیک اسی دن ہوا تھا، کئی سال پہلے، جس دن کریم نے اس خاتون کو چھوڑا تھا۔
کریم کو ٹھنڈے پسینے آ گئے۔ کیا وہ ایک بھوت تھا؟ یا کوئی پراسرار پیغام؟ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا ہوا۔ وہ بٹوہ اور اخبار کا تراشہ لے کر گھر آ گیا، اور کئی دن تک اس نے اس کے بارے میں کسی سے بات نہیں کی۔ لیکن اس واقعے نے اس کی زندگی کو بدل دیا۔ وہ اب ہر مسافر کو زیادہ توجہ سے دیکھتا تھا، ہر چہرے پر چھپی کہانی کو پڑھنے کی کوشش کرتا تھا۔ وہ سمجھ گیا تھا کہ زندگی میں کچھ چیزیں ہماری سمجھ سے باہر ہوتی ہیں، لیکن وہ ہمیں ایک گہرا سبق دے جاتی ہیں۔
کریم نے پھر کبھی اس گلی میں بس نہیں موڑی، لیکن اس پراسرار رات کی یاد ہمیشہ اس کے ذہن میں تازہ رہی۔ اس نے اسے ایک بہتر انسان، ایک زیادہ مشاہداتی ڈرائیور بنا دیا تھا۔ وہ اب صرف ایک بس ڈرائیور نہیں تھا، بلکہ ایک کہانی کا حصہ بن چکا تھا، ایک ایسی کہانی جو اسے زندگی کی پراسراریت اور انسانی ہمدردی کی اہمیت کو سمجھاتی تھی۔