عائشہ کی جستجو
ایک ویران رات تھی جب عائشہ نے اپنے گاؤں کے باہر بنے پرانے برگد کے درخت کے نیچے کھڑے ہو کر آسمان کی طرف دیکھا۔ ستارے اپنی پوری آب و تاب سے چمک رہے تھے، لیکن عائشہ کے دل میں ایک بے چینی تھی۔ اسے ہمیشہ یہ محسوس ہوتا تھا کہ اس کی زندگی کا کوئی نہ کوئی مقصد ہے، جو ابھی تک اس کی گرفت میں نہیں آیا۔
![]() |
ایک پراسرارکتاب |
عائشہ ایک عام لڑکی تھی، جو گاؤں کے رسم و رواج اور روایتی زندگی سے تنگ آ چکی تھی۔ وہ کچھ مختلف کرنا چاہتی تھی، کچھ ایسا جو اسے اندر سے سکون دے۔ ایک رات، اس نے خواب دیکھا کہ ایک بزرگ اسے ایک پراسرارکتاب کے بارے میں بتا رہے ہیں، جو گاؤں کے سب سے قدیم مندر کے تہہ خانے میں چھپی ہوئی ہے۔ اس کتاب میں ایک راز ہے جو عائشہ کی زندگی کا مقصد روشن کر سکتا ہے۔
اگلی صبح، عائشہ نے اپنی دادی کو خواب سنایا۔ دادی نے اسے حیرت سے دیکھا اور کہا، "بیٹی، اس مندر کے تہہ خانے میں تو صدیوں سے کوئی نہیں گیا، لوگ کہتے ہیں وہاں آسیب کا سایہ ہے۔" لیکن عائشہ کا ارادہ پختہ تھا۔ وہ جانتی تھی کہ یہ صرف ایک خواب نہیں تھا، بلکہ ایک اشارہ تھا۔
عائشہ نے چپکے سے مندر جانے کا فیصلہ کیا۔ رات کے گہرے سائے میں، وہ مندر کی پرانی سیڑھیاں چڑھتی گئی۔ مندر کے اندر ایک عجیب سی خاموشی چھائی ہوئی تھی، جو دل میں سنسنی پیدا کر رہی تھی۔ اسے تہہ خانے کا دروازہ ڈھونڈنا تھا، جس کے بارے میں خواب میں اشارہ ملا تھا۔ کافی تلاش کے بعد اسے ایک چھپا ہوا دروازہ ملا، جو پتھروں کے پیچھے تھا۔
جیسے ہی عائشہ نے دروازہ کھولا، ایک ٹھنڈی ہوا کا جھونکا اس کے چہرے سے ٹکرایا۔ اندر اندھیرا اتنا گہرا تھا کہ کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔ اس نے ہمت کی اور اندر قدم رکھا۔ سیڑھیاں نیچے جا رہی تھیں، اور ہر قدم کے ساتھ ایک عجیب سی آواز پیدا ہو رہی تھی، جیسے کوئی اس کا پیچھا کر رہا ہو۔ عائشہ نے اپنی جیب سے ایک چھوٹی سی موم بتی نکالی اور اسے روشن کیا۔ مدھم روشنی میں اسے دیواروں پر عجیب و غریب نقوش نظر آئے، جو کسی پرانی زبان میں تھے۔
اچانک، اسے ایک تیز چیخ سنائی دی! عائشہ کا دل دھک سے رہ گیا۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا، لیکن کچھ نظر نہیں آیا۔ کیا یہ آسیب تھا جس کا دادی نے ذکر کیا تھا؟ اس کے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہونے لگے، لیکن اس نے اپنی ہمت نہیں ہاری۔ اسے یاد آیا کہ اس کا مقصد کیا ہے، اور یہ خوف اسے روک نہیں سکتا تھا۔
وہ آگے بڑھتی رہی، جب تک کہ اسے ایک بہت بڑا لوہے کا صندوق نظر نہیں آیا۔ صندوق پر وہی نقوش بنے ہوئے تھے جو دیواروں پر تھے۔ عائشہ کو یقین ہو گیاعائشہ کی جستجو کہ یہی وہ صندوق ہے جس میں وہ پراسرار کتاب ہے۔ اس نے بڑی مشکل سے صندوق کا ڈھکن اٹھایا۔ اندر ایک پرانی، زرد پڑی ہوئی کتاب تھی، جس پر کوئی نام نہیں لکھا تھا۔
جیسے ہی عائشہ نے کتاب کھولی، ایک تیز روشنی چمکی اور تہہ خانہ روشن ہو گیا۔ کتاب کے پہلے صفحے پر لکھا تھا، "تمہارا سب سے بڑا خوف ہی تمہاری سب سے بڑی طاقت ہے۔" عائشہ نے کتاب پڑھنا شروع کی۔ اس کتاب میں گاؤں کے ماضی، ان کے آبا و اجداد کے خوابوں اور ان کے ادھورے منصوبوں کا ذکر تھا۔ اس میں یہ بھی لکھا تھا کہ گاؤں کو ایک عرصے سے ایک خاص فصل کی کمی کا سامنا ہے، جس کی وجہ سے گاؤں والے غربت کا شکار ہیں۔
پھر اسے سمجھ آیا کہ خواب میں دکھایا گیا آسیب کا سایہ دراصل گاؤں کی پسماندگی اور خوف تھا۔ اس کتاب میں اس خاص فصل کو دوبارہ اگانے کے طریقے اور اس کے لیے زمین کی تیاری کے راز بھی تھے۔ عائشہ کو اب اپنا مقصد مل چکا تھا۔ وہ گاؤں والوں کو اس خوف سے آزاد کروانے اور انہیں دوبارہ خوشحال بنانے کا راستہ ڈھونڈ چکی تھی۔
عائشہ نے کتاب اٹھائی اور تہہ خانے سے باہر نکل آئی۔ صبح کی پہلی کرنیں مندر پر پڑ رہی تھیں، اور عائشہ کے دل میں ایک نئی امید تھی۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ گاؤں والوں کو اس کتاب میں چھپے راز بتائے گی اور انہیں خوف کے بجائے امید کا راستہ دکھائے گی۔ اب اسے یقین تھا کہ کوئی بھی خواب چھوٹا نہیں ہوتا، اور ہر انسان کی زندگی کا ایک مقصد ہوتا ہے، بس اسے تلاش کرنے کی ہمت چاہیے۔
کیا عائشہ گاؤں والوں کو کتاب میں چھپے رازوں پر یقین دلا پائے گی، اور کیا وہ گاؤں کو دوبارہ خوشحال بنا سکے گی؟ یہ تو وقت ہی بتائے گا۔