۔"
نصیر کا بھید
رات کے سائے گہرے ہو رہے تھے، اور لاہور کی تنگ گلیوں میں ایک عجیب سی خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ نصیر، ایک عام سا نوجوان، اپنے چھوٹے سے کمرے میں بیٹھا ہوا تھا اور اس کی نظریں سامنے کھلی کتاب پر جمی ہوئی تھیں۔ کتاب کے ہر صفحے پر اسرار کے دھندلکے اور تاریخ کے بوسیدہ اوراق سے جھانکتی ایک نہ سمجھ میں آنے والی حقیقت کا عکس تھا۔ وہ کتاب جس کا عنوان تھا "خفیہ راستے اور گمشدہ ہیر" ان کا موضوع اور جو ان کی اس وقت کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی تھی! وہ عام نہیں تھی، وہ اس کے خاندان کی نسل در نسل وراثت کا ایک حصہ تھی جو اسے اب ملی تھی! اس کے پرکھوں نے اسے سینے سے لگا کر رکھا تھا اور اسے کسی اور کے سامنے نہ لانے کی قسم کھائی تھی! کتاب کی پرانی جلد اوراق کو ایک ساتھ بمشکل جوڑے ہوئے تھی۔ وہ جیسے ہی کوئی صفحہ پلٹتا، اس کی آنکھوں میں ایک نئی چمک آ جاتی۔ اس کی زندگی اچانک ایک ایسے موڑ پر آ گئی تھی جہاں اسے اس کتاب میں اپنے خاندان کا ذکر مل رہا تھا۔
![]() |
تاریکی کتاب |
اسی دوران اس کا فون بجنے لگا، لیکن اس نے کال کاٹ دی۔ اسے ڈر تھا کہ کوئی اس کی موجودگی کو جان لے گا اور اس سے وہ کتاب چھین لے گا۔ وہ چھیننا نہیں چاہتا تھا۔ اس کو اپنے ساتھ رکھنا چاہتا تھا۔
نصیر، جو کبھی زندگی میں کسی خاص مقصد کے پیچھے نہیں بھاگا تھا، اچانک ایک ایسے راز کا حصہ بن چکا تھا جس کی جڑیں اس کے خاندان کی "تاریخ میں پیوست تھیں۔ اس نے کتاب میں ایک پرانے نقشے کا سراغ لگایا، جس میں ایک پوشیدہ خزانے کی نشان دہی کی گئی تھی۔ یہ خزانہ کوئی عام دولت."
اسے منفرد اور بہتر انداز میں یوں لکھا جا سکتا ہے:
بہتر اور سرقہ سے پاک متن بلکہ یہ ایک ایسا علمی ورثہ تھا جو صدیوں سے گمشدہ تھا۔
اگلے دن، نصیر نے اپنا بیگ تیار کیا اور چپ چاپ گھر سے نکل گیا۔ اس کی منزل وہ پرانا قلعہ تھا جو شہر کے شور سے دور ویرانی میں کھڑا تھا۔ راستے میں اسے کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک موڑ پر اسے ایک اجنبی شخص ملا جس نے اسے روکنے کی کوشش کی۔ "کہاں جا رہے ہو، نوجوان؟" اس شخص نے پراسرار لہجے میں پوچھا۔ نصیر کو شک ہوا، اور وہ تیزی سے آگے بڑھ گیا۔ اسے محسوس ہو رہا تھا جیسے کوئی اس کا پیچھا کر رہا ہے۔
قلعے کے اندر داخل ہوتے ہی نصیر کو ایک عجیب سی سردی محسوس ہوئی۔ قلعے کی دیواروں پر پرانے نقوش تھے، اور ہر نقوش ایک کہانی بیان کر رہا تھا۔ وہ نقشے کی مدد سے ایک خفیہ کمرے تک پہنچا، جہاں ایک پرانی صندوق پڑی تھی۔ اس نے صندوق کو کھولا، اور اس کے اندر اسے کئی پرانی دستاویزات اور ایک چمکتی ہوئی تلوار ملی۔ تلوار پر کچھ عجیب و غریب الفاظ کندہ تھے۔
اسی لمحے، اسے پیچھے سے کسی کی آہٹ سنائی دی۔ وہ پلٹا تو دیکھا وہی اجنبی شخص اس کے سامنے کھڑا تھا۔ "آخر تم یہاں پہنچ ہی گئے،" اجنبی نے کہا۔ "میں کب سے تمہارا انتظار کر رہا تھا۔" نصیر حیران رہ گیا! اس نے پوچھا "آپ کون ہیں اور آپ یہاں کیا کر رہے ہیں؟"
اجنبی نے مسکرا کر جواب دیا، "میں تمہارے خاندان کا ایک پرانا محافظ ہوں۔ یہ خزانہ تمہاری قسمت میں لکھا تھا، لیکن اسے صرف وہی حاصل کر سکتا تھا جو ہمت اور حکمت کا مظاہرہ کرے۔" اجنبی نے اسے بتایا کہ یہ تلوار اور دستاویزات ایک قدیم علم کا حصہ ہیں جو دنیا کو تاریکی سے بچا سکتی ہیں۔ نصیر کو یہ سن کر فخر محسوس ہوا۔ اسے محسوس ہوا کہ اب اس کی زندگی میں ایک مقصد ہے، ایک ایسا مقصد جو اسے صرف اپنے لیے نہیں، بلکہ دنیا کی بھلائی کے لیے کام کرنے پر آمادہ کرے گا۔ اس نے تلوار اور دستاویزات کو اٹھایا، اور ایک نئی امید کے ساتھ قلعے سے باہر نکلا۔
اس دن سے نصیر کی زندگی بدل گئی۔ وہ اب صرف ایک عام نوجوان نہیں تھا، بلکہ ایک محافظ تھا، ایک ہیرو تھا جو علم کی روشنی سے دنیا کو روشن کرنے کے لیے نکلا تھا۔ اس کی کہانی صرف ایک خزانے کی تلاش کی نہیں تھی، بلکہ خود کی پہچان اور اپنے اندر چھپی طاقت کو دریافت کرنے کی کہانی تھی۔