علی کی کہانی: ایک پوشیدہ راستہ
علی ایک چھوٹے سے گاؤں رہتا تھا، جہاں زندگی کی رفتار بہت سست تھی۔ اس کی آنکھوں میں بڑے خواب تھے، لیکن حقیقت کے بوجھ تلے وہ اکثر دب جاتے تھے۔ وہ اپنی گاؤں کی واحد لائبریری میںعلی کی پوشیدہ کہانی: ایک گاؤں کا لڑکا، پراسرار تعویذ، اور ایک زیر زمین کتب خانے کا انکشاف۔ کیا علی اپنے علم کے خواب کو حقیقت بنا پائے گا؟ تجسس اور امید کی یہ داستان پڑھیں۔
![]() |
علی |
گھنٹوں بیٹھا رہتا، پرانی کتابوں کے اوراق پلٹتا اور ایک ایسی دنیا کا تصور کرتا جہاں علم کی کوئی حد نہ ہو۔ اس کا سب سے بڑا خواب ایک بڑا کتب خانہ بنانا تھا، جو علم کی پیاس بجھانے کے لیے ہر کسی کے لیے کھلا ہو۔ لیکن وسائل کی کمی اور گاؤں کی قدامت پسند سوچ نے اس کے خوابوں پر ایک بھاری پردہ ڈال رکھا تھا۔
ایک دن، لائبریری میں ایک نئی کتاب آئی۔ یہ ایک پرانی، خستہ حال کتاب تھی جس کا سرورق مٹ چکا تھا۔ علی نے اسے اٹھایا، اور اس کے اندر سے ایک چھوٹا، چمکتا ہوا تعویذ گرا۔ تعویذ پر کچھ عجیب و غریب نشانات بنے ہوئے تھے جو اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے۔ اس کے دل میں ایک عجیب سی کھلبلی مچی۔ اسے لگا جیسے یہ کوئی عام تعویذ نہیں، بلکہ کسی گہرے راز کا حصہ ہے۔
علی نے تعویذ کو اپنی جیب میں رکھا اور اس دن سے اس کی زندگی میں عجیب و غریب واقعات پیش آنے لگے۔ راتوں کو اسے خواب میں ایک پرانا، ویران کنواں دکھائی دیتا، جس کے اندر سے ایک مدھم روشنی نکل رہی ہوتی تھی۔ دن میں اسے کتب خانوں کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کی دھن سوار رہتی۔ وہ جہاں بھی جاتا، اسے ہر چیز میں کتب خانوں سے متعلق اشارے ملتے۔ یہ سب کچھ اس قدر غیر معمولی تھا کہ علی پریشان ہو گیا۔ کیا یہ سب صرف اتفاق تھا یا کوئی پوشیدہ قوت اسے کسی نامعلوم سمت لے جا رہی تھی؟
ایک رات، جب خواب میں وہی کنواں پھر دکھائی دیا، تو اس نے محسوس کیا کہ یہ صرف ایک خواب نہیں بلکہ ایک اشارہ ہے۔ تعویذ اس کی جیب میں گرم ہو رہا تھا، اور اس کے نشانات مزید چمک رہے تھے۔ علی نے فیصلہ کیا کہ وہ اس کنویں کو تلاش کرے گا۔ اسے نہیں معلوم تھا کہ وہ کنواں کہاں ہے، لیکن اس کے دل میں ایک غیر مرئی کشش تھی جو اسے کھینچ رہی تھی۔
اس نے گاؤں کے بزرگوں سے کنویں کے بارے میں پوچھا، لیکن کسی کو بھی اس کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا۔ سب نے یہی کہا کہ گاؤں میں کوئی ایسا کنواں نہیں ہے۔ علی کو مایوسی ہوئی، لیکن اس کے اندر کی آواز اسے باز رہنے نہیں دے رہی تھی۔ اس نے تعویذ کو ہاتھ میں لیا اور غور سے اس کے نشانات کو دیکھا۔ اسے لگا جیسے وہ نقشہ ہوں۔ اس نے گاؤں کے آس پاس کے علاقے کا ایک پرانا نقشہ نکالا اور تعویذ کے نشانات کو اس پر رکھنے کی کوشش کی۔ حیرت انگیز طور پر، تعویذ کے نشانات نقشے کے ایک خاص نقطے پر بالکل فٹ بیٹھ گئے۔ وہ نقطہ گاؤں سے دور ایک ویران پہاڑی علاقے کی نشاندہی کر رہا تھا۔
اگلے دن، علی نے کسی کو بتائے بغیر اس مقام کی طرف سفر شروع کیا۔ راستے میں اسے کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، گھنے جنگلات اور پتھریلے راستوں سے گزرنا پڑا، لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری۔ تعویذ کی چمک اور اس کے دل میں چھپا تجسس اسے آگے بڑھنے پر مجبور کر رہا تھا۔ بالآخر، کئی گھنٹوں کی محنت کے بعد وہ اس مقام پر پہنچا جہاں نقشے میں نشان لگایا گیا تھا۔ وہاں ایک پرانا، ویران کنواں موجود تھا۔
کنواں واقعی وہی تھا جو اس نے خوابوں میں دیکھا تھا۔ اس کے منہ پر پرانے پتھر اور بیلیں اگی ہوئی تھیں۔ علی نے احتیاط سے نیچے جھانک کر دیکھا۔ اندھیرے میں اسے کچھ نظر نہیں آیا، لیکن تعویذ کی چمک تیز ہو گئی اور اس سے ایک مدھم روشنی نکلنے لگی جو کنویں کے اندرونی حصے کو روشن کرنے لگی۔ حیرت انگیز طور پر، کنویں کی دیوار پر ایک خفیہ دروازہ موجود تھا۔
علی کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔ اس نے ہمت کی اور دروازہ کھولنے کی کوشش کی۔ وہ بہت وزنی تھا، لیکن علی نے اپنی پوری طاقت لگائی۔ دروازہ آہستہ آہستہ کھلا، اور اس کے اندر ایک تاریک سرنگ تھی۔ تعویذ کی روشنی مزید تیز ہو گئی، اور اس نے سرنگ کو روشن کر دیا۔ سرنگ کے اختتام پر، علی نے جو دیکھا وہ ناقابل یقین تھا۔
وہاں ایک وسیع زیر زمین کتب خانہ تھا! ہزاروں پرانی کتابیں، منظم انداز میں شیلفوں پر سجی ہوئی تھیں۔ یہ کسی طلسمی دنیا کا حصہ معلوم ہوتا تھا۔ کتابیں اتنی پرانی تھیں کہ ان کی جلدیں بوسیدہ ہو چکی تھیں، لیکن ان میں علم کا خزانہ چھپا ہوا تھا۔ تعویذ کی روشنی نے کتب خانے کو جگمگا دیا اور علی کو یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ اس کے مرکز میں ایک سنگ مرمر کی میز پر وہی پرانی کتاب رکھی تھی جس سے تعویذ گرا تھا۔
علی نے کتاب کھولی، اور اس میں لکھا تھا، "یہ کتب خانہ صدیوں سے پوشیدہ ہے، اسے صرف وہی تلاش کر سکتا ہے جس کے دل میں علم کی سچی لگن ہو اور جو تقدیر کے اشاروں کو سمجھ سکے۔ یہ تمہاری ذمہ داری ہے کہ تم اس علم کو دنیا تک پہنچاؤ۔"
علی کو سمجھ آ گیا کہ اس کا خواب محض ایک خواب نہیں تھا بلکہ اس کی تقدیر تھی۔ یہ کتب خانہ ایک امتحان تھا، اور اس نے اسے عبور کر لیا تھا۔ اس نے نہ صرف ایک پوشیدہ خزانہ دریافت کیا تھا بلکہ اپنے اندر کی طاقت کو بھی پہچانا تھا۔ وہ سمجھ گیا کہ علم کی پیاس اور سچی لگن انسان کو کہیں سے کہیں پہنچا دیتی ہے، یہاں تک کہ ایسے راز بھی فاش کر دیتی ہے جو صدیوں سے پوشیدہ ہوں۔ علی نے کتب خانے کے علم کو دنیا تک پہنچانے کا عزم کیا، اور اس طرح اس کا خواب حقیقت بن گیا۔ وہ صرف ایک کتب خانے کا مالک نہیں بنا تھا، بلکہ علم اور امید کی روشنی کا پیامبر بن چکا تھا۔