مدثر: ایک بینک ملازم کی مثالی کہانی
مدثر، ایک عام سا نام، ایک عام سی زندگی کا مالک، مگر اس کے اندر چھپا ایک غیر معمولی عزم جو اسے دوسروں سے ممتاز کرتا تھا۔ لاہور کے ایک چھوٹے سے علاقے میں رہنے والا مدثر، اپنے والدین کا اکلوتا سہارا تھا۔ ایک ایسے خاندان کا چشم و چراغ جہاں مالی حالات ہمیشہ کشیدہ رہتے تھے۔ اس نے اپنی ابتدائی تعلیم ایک سرکاری سکول سے حاصل کی اور وقت کے ساتھ ساتھ بی کام کی ڈگری بھی مکمل کر لی۔ اس کا سب سے بڑا خواب ایک بینک میں ملازمت حاصل کرنا تھا، تاکہ وہ اپنے والدین کے بڑھاپے کا سہارا بن سکے اور اپنی چھوٹی بہن کی تعلیم جاری رکھ سکے۔
![]() |
مدثر |
سالوں کی محنت اور کئی ناکامیوں کے بعد، بالآخر مدثر کو ایک نجی بینک میں کلرک کی نوکری مل گئی۔ یہ اس کے لیے ایک بہت بڑی کامیابی تھی، مگر کہانی کا آغاز تو اب ہونا تھا۔ بینک کی دنیا بظاہر پرکشش لگتی تھی، مگر مدثر نے جلد ہی محسوس کر لیا کہ یہ جگہ بھی چیلنجز سے خالی نہیں۔ اس کی تنخواہ معمولی تھی، اور گھر کے اخراجات بمشکل پورے ہوتے تھے۔ اس کے اوپر بینک کے کام کا دباؤ بھی بہت زیادہ تھا۔ اسے روزانہ سینکڑوں صارفین کو سنبھالنا ہوتا، جن میں سے کچھ تو بہت غصے والے اور بے صبری ہوتے تھے۔ کبھی غلطی سے حساب میں گڑبڑ ہو جاتی تو افسران کی ڈانٹ پڑتی، اور کبھی بینک کے سخت اصول و ضوابط اس کے لیے سر درد بن جاتے۔
مدثر ایک عام کلرک سے مختلف تھا۔ وہ صرف ایک مشین کی طرح کام نہیں کرتا تھا۔ وہ اپنے کام کو ذمہ داری اور لگن سے انجام دیتا تھا۔ اس کا اخلاق، صبر اور کام سے لگن اسے دیگر ملازمین سے ممتاز کرتا تھا۔ وہ ہر صارف کی بات غور سے سنتا اور ان کے مسائل حل کرنے کی پوری کوشش کرتا۔ ایک دفعہ ایک بزرگ خاتون اپنی پنشن نکلوانے آئیں، مگر ان کے کاغذات میں کچھ کمی تھی۔ بینک کے اصول کے مطابق ان کا کام نہیں ہو سکتا تھا، مگر مدثر نے اپنی ذمہ داری سے ہٹ کر ان کی مدد کی اور آدھا دن لگا کر ان کے کاغذات درست کروائے۔ اس دن اس نے اپنے افسر کی ڈانٹ تو سنی، مگر اس بزرگ خاتون کی دعائیں اس کے لیے دنیا کی سب سے بڑی دولت تھیں۔
مدثر کو بینک میں آئے پانچ سال ہو چکے تھے، مگر اس کی ترقی کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی تھی۔ اس کے ہم جماعت جو دوسرے بینکوں میں تھے، وہ یا تو افسر بن چکے تھے یا اچھی خاصی تنخواہ لے رہے تھے۔ مدثر کو یہ سب دیکھ کر کبھی کبھی مایوسی ہوتی، مگر اس نے اپنے آپ کو ہمیشہ یہ یاد دلایا کہ "محنت کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔" اس نے اپنی کمیوں پر کام کرنا شروع کیا۔ اس نے بینکنگ کے نئے کورسز پڑھے، گھر پر کمپیوٹر پر کام کرنا سیکھا اور اپنے انگریزی کو بہتر کیا۔ وہ رات گئے تک جاگ کر اپنی مہارتوں کو نکھارتا رہا۔ اس کے افسران نے اس کی لگن کو دیکھا اور اسے ایک نئے پروجیکٹ میں شامل کر لیا۔ یہ ایک ایسا پروجیکٹ تھا جو بینک کی ڈیجیٹل سروسز کو بہتر بنانے کے لیے تھا۔
مدثر نے اس پروجیکٹ میں اپ
۔ کچھ ہی مہینوں بعد، اس کی محنت رنگ لائی اور اپنی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے اور انگریزی میں بہتری لانے کے لیے، وہ رات گئے تک جاگ کر اپنی مہارتوں کو جلا بخشتا رہا۔ اس کے افسران نے اس کی لگن کو خوب سراہا۔ اسسٹنٹ منیجر کے عہدے پر ترقی دے دی گئی۔ یہ صرف ایک ترقی نہیں تھی، یہ اس کی سالوں کی محنت، صبر اور کبھی نہ ہار ماننے والے رویے کا نتیجہ تھی۔ اس کی تنخواہ میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا، جس سے وہ اپنے والدین کو بہتر زندگی دے سکا اور اپنی بہن کی تعلیم بھی مکمل کروا سکا۔
مدثر کی کہانی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ زندگی میں کامیاب ہونے کے لیے صرف ڈگری یا اعلیٰ عہدے کا حصول کافی نہیں۔ اصل کامیابی اس وقت ملتی ہے جب انسان اپنے کام سے مخلص ہو، لگن سے محنت کرے، اور مشکلات کا سامنا ہمت سے کرے۔ مدثر نے ثابت کیا کہ ایک عام بینک کلرک بھی اپنی محنت اور پختہ ارادے سے غیر معمولی کامیابیاں حاصل کر سکتا ہے۔ اس کی کہانی آج بھی بینک کے دوسرے ملازمین کے لیے ایک مثال ہے کہ اگر دل میں کچھ کر گزرنے کا عزم ہو تو کوئی بھی رکاوٹ بڑی نہیں ہوتی۔
اگر آپ اس کہانی میں کوئی اور تبدیلی چاہتے ہیں یا کسی اور موضوع پر کہانی لکھوانا چاہتے ہیں تو بلا جھجھک بتائیں۔