ماں: ایک انمول رشتہ
ایک چھوٹے سے، پرسکون گاؤں میں، جہاں ہر صبح پرندوں کا چہچہانا اور کھیتوں کی مہک زندگی کا آغاز کرتی تھی، فاطمہ نامی ایک باہمت اور نہایت پرعزم خاتون رہتی تھی۔ اس کی زندگی کی کہانی کسی المیے سے کم نہ تھی؛ اس کے شوہر، جو ایک نیک دل اور محنتی انسان تھے، تب اس دنیا سے رخصت ہو گئے جب ان کا اکلوتا بیٹا، احمد، صرف پانچ برس کا تھا۔ اس کم عمری میں اپنے شوہر کو کھو دینا فاطمہ کے لیے ایک پہاڑ ٹوٹنے کے مترادف تھا، لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری۔ اس کی آنکھوں میں صرف ایک ہی خواب تھا: اپنے بیٹے احمد کو بہترین تعلیم دلانا اور اسے معاشرے کا ایک کامیاب فرد بنانا، چاہے اس کے لیے اسے کتنی ہی قربانیاں کیوں نہ دینی پڑیں۔ احمد ہی اس کی دنیا تھی، اس کی امید کی کرن اور اس کے جینے کا واحد مقصد۔
![]() |
ماں |
فاطمہ کی زندگی مشکلات سے بھری تھی۔ اکثر اوقات انہیں فاقوں کا سامنا کرنا پڑتا، لیکن اس کے عزم میں ذرا بھی کمی نہ آتی۔ وہ ہر صبح سورج نکلنے سے پہلے بیدار ہو جاتی، گاؤں کے دیگر محنت کشوں کے ساتھ کھیتوں میں جا کر مشقت کرتی۔ دن بھر کی کڑی دھوپ اور مٹی میں لت پت کام کے بعد جب وہ گھر لوٹتی * دن بھر کی تھکا دینے والی مشقت کے بعد جب وہ گھر لوٹتی، تو اس کا ہر جوڑ درد سے چور ہوتا، لیکن اسے آرام کا موقع نہیں ملتا تھا گھر آکر وہ سلائی کڑھائی کا کام شروع کر دیتی جو اسے پڑوسیوں سے ملتا تھا۔ رات گئے تک سوئی اس کی انگلیوں میں رقص کرتی رہتی، اور پھر شام ڈھلے وہ گاؤں کے چند بچوں کو ٹیوشن بھی پڑھاتی تاکہ احمد کی اسکول کی فیس اور کتابوں کا خرچہ پورا ہو سکے۔ اس کے ہاتھ کھردرے اور تھکن سے چور ہوتے، انگلیوں پر زخموں کے نشان نمایاں ہوتے، لیکن اس کے چہرے پر ہمیشہ ایک پرسکون مسکراہٹ رہتی۔ یہ وہ مسکراہٹ تھی جو احمد کو اپنی مشکلات کا کبھی احساس نہ ہونے دیتی، وہ سوچتا تھا کہ اس کی ماں دنیا کی سب سے خوش انسان ہے۔
احمد اپنی ماں کی غیر معمولی قربانیوں کو بخوبی سمجھتا تھا۔ وہ دیکھتا تھا کہ اس کی ماں کس طرح دن رات اپنی آسائشوں کو ترک کر کے اس کے لیے محنت کر رہی ہے۔ اس نے چھوٹی عمر ہی میں یہ تہیہ کر لیا تھا کہ وہ کبھی اپنی ماں کی امیدوں کو ٹوٹنے نہیں دے گا۔ اس نے اپنی پوری لگن اور محنت کے ساتھ پڑھائی کی، اسکول میں ہمیشہ ٹاپ کیا، اور اساتذہ اس کی ذہانت اور علم سے محبت کی داد دیتے نہ تھکتے۔ اس کی کاپیوں پر ہر امتحان میں "بہت خوب" اور "قابل فخر کارکردگی" کے ریمارکس لکھے ہوتے، اور جب وہ انہیں اپنی ماں کو دکھاتا تو فاطمہ کی آنکھیں خوشی سے چمک اٹھتیں۔
وقت پر لگا کر اڑتا رہا اور احمد نے شاندار نمبروں سے میٹرک کا امتحان پاس کر لیا۔ اب اسے شہر کی ایک مشہور یونیورسٹی میں داخلہ مل گیا تھا، جہاں اس کے تعلیمی سفر کی اگلی منزل منتظر تھی۔ یہ فاطمہ کے لیے ایک خواب کی تعبیر تھی، ایک ایسا خواب جو اس نے سالوں پہلے آنکھوں میں سجایا تھا، لیکن اس خوشی کے ساتھ ہی ایک نئی اور بڑی مشکل سر اٹھا رہی تھی – یونیورسٹی کی فیس اس کی توقع سے کہیں زیادہ تھی۔
فاطمہ نے اپنی برسوں کی جمع پونجی نکالی، جو اس نے ایک ایک روپیہ جوڑ کر اکٹھی کی تھی۔ اس کے پاس ایک پرانی سائیکل تھی جس پر وہ گاؤں میں سودا سلف لانے جایا کرتی تھی، اس نے اسے بھی بیچ دیا۔ جب اتنے سے بھی کام نہ بنا تو اس نے گاؤں کے چند معزز اور نیک دل لوگوں سے قرض بھی لیا، جنہوں نے اس کی ہمت اور احمد کی قابلیت کو دیکھتے ہوئے اس کی مدد کی۔ لیکن سب سے بڑی قربانی وہ تھی جو اس نے اپنے دل پر پتھر رکھ کر کی۔ اس نے اپنی زندگی کی سب سے قیمتی نشانی، اپنی شادی کا واحد ہار، جو اس کے مرحوم شوہر کی یادگار تھا، اسے بیچ دیا۔ جب احمد نے پریشانی سے پوچھا، "ماں! آپ نے ہار کیوں بیچا؟ یہ تو ابا جان کی نشانی تھی!" تو فاطمہ نے اپنے لرزتے ہاتھوں سے احمد کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرا اور ایک گہری سانس لے کر بولی، "بیٹا، تمہارا مستقبل میرے لیے کسی بھی ہیرے، کسی بھی سونے کے ہار سے زیادہ قیمتی ہے۔ یہ ہار تو صرف ایک دھات ہے، لیکن تمہارا مستقبل میرا سچا سرمایہ ہے۔" ماں کے ان الفاظ نے احمد کے دل میں گھر کر لیا اور اس نے عہد کیا کہ وہ اس قرض کو کبھی نہیں بھولے گا۔
احمد نے یونیورسٹی میں دن رات ایک کر دیا۔ وہ اپنی ماں کی قربانیوں کو ایک لمحے کے لیے بھی نہیں بھولا۔ جب کبھی اسے کوئی مشکل پیش آتی یا ہمت ہارنے لگتا، تو اسے اپنی ماں کے کھردرے ہاتھ، اس کے چہرے کی مسکراہٹ اور ہار بیچنے والی بات یاد آ جاتی۔ یہ خیال اس کے لیے سب سے بڑا حوصلہ بنتا۔ اس نے خوب محنت کی اور ممتاز نمبروں سے اپنی انجینئرنگ کی ڈگری مکمل کی۔ یونیورسٹی کے آخری سیمسٹر میں ہی اسے ایک بڑی ملٹی نیشنل کمپنی میں ایک بہترین پوزیشن پر ملازمت کی پیشکش ہو گئی، جو اس کی قابلیت کا منہ بولتا ثبوت تھی۔
جس دن اس کی پہلی تنخواہ آئی، احمد کے قدموں میں جیسے پر لگ گئے تھے۔ وہ اپنی ساری تنخواہ لے کر، بنا کسی تاخیر کے، بھاگتا ہوا اپنی ماں کے پاس پہنچا۔ اس نے تمام پیسے ماں کے قدموں میں رکھ دیے اور اس کی آنکھوں میں نمی تھی۔ وہ جذباتی آواز میں بولا، "ماں! آج میں جو کچھ بھی ہوں، صرف اور صرف آپ کی قربانیوں کا نتیجہ ہے۔ یہ سب کچھ آپ کی محنت اور دعاؤں کی بدولت ہے۔ میرا سب کچھ آپ کا ہے۔"
فاطمہ کی آنکھوں میں آنسو تھے، لیکن یہ آنسو غم کے نہیں، بلکہ فخر، خوشی اور بے پناہ سکون کے تھے۔ اس نے اپنے بیٹے کو مضبوطی سے گلے لگایا، جیسے وہ اسے ہمیشہ کے لیے اپنے اندر سمیٹ لینا چاہتی ہو۔ اس نے سرگوشی کرتے ہوئے کہا، "بیٹا، ماں کی محبت اور دعائیں ہمیشہ تمہارے ساتھ ہیں۔ تم نے مجھے کبھی مایوس نہیں کیا۔ تم نے آج میرا سر فخر سے بلند کر دیا ہے۔"
یہ کہانی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ماں کا رشتہ واقعی انمول ہوتا ہے۔ اس کی محبت کی کوئی حد نہیں، اس کی قربانیوں کا کوئی ثانی نہیں اور اس کا حوصلہ کسی بھی طوفان کا سامنا کر سکتا ہے۔ ماں کی عظمت اور اس کی بے لوث محبت ہی وہ طاقت ہے جو بچوں کو کامیابی کی بلندیوں تک پہنچا سکتی ہے۔
کیا آپ اس کہانی کے بارے میں مزید بات کرنا چاہیں گے یا کوئی اور کہانی سننا چاہیں گے؟