باغبان کی لگن
سردیوں کی ٹھنڈی شام تھی، جب سورج اپنی سنہری شعاعیں سمیٹتا ہوا مغرب کی اوٹ میں چھپنے کی تیاری کر رہا تھا۔ گاؤں کے کنارے، ایک چھوٹی سی کٹیا میں، جہاں سے تازہ مٹی اور پھولوں کی ہلکی خوشبو آتی تھی، وہیں 60 سالہ رحیم چچا رہتے تھے، جو اپنی تمام عمر باغیچہ کی دیکھ بھال کرتے ہوئے گزار چکے تھے۔ ان کے ہاتھ کھردرے اور چہرے پر گہری جھغریبریاں تھیں، جو گزرتے وقت اور محنت کی گواہی دیتی تھیں۔ لوگ انہیں "غریب باغبان" کے نام سے پکارتے تھے، کیونکہ ان کی مالی حالت کبھی بہتر نہیں ہوئی تھی۔
![]() |
باغیچہ |
رحیم چچا کا باغیچہ کوئی عام باغیچہ نہیں تھا، یہ ان کی دنیا تھا، ان کی امیدوں اور خوابوں کا مسکن۔ اس میں ہر قسم کے پھول تھے: گلاب کی سرخ پنکھڑیاں جو شبنم سے چمکتی تھیں، چمبیلی کی سفید کلیاں جو رات میں خوشبو بکھیرتی تھیں، اور نرگس کے پیلے پھول جو سورج کی روشنی میں جھومتے تھے۔ یہ تمام پھول رحیم چچا کی بے لوث محبت اور محنت کا نتیجہ تھے۔ وہ صبح صادق سے لے کر شام کے ڈھلنے تک اپنے باغیچے میں مگن رہتے تھے۔ ہر پودے کو اپنے بچے کی طرح پالتے، انہیں پانی دیتے، کھاد ڈالتے اور کانٹ چھانٹ کرتے تاکہ وہ صحت مند رہیں۔
ان کی زندگی میں کئی مشکلات آئیں۔ ایک سال شدید خشک سالی پڑی، کنویں سوکھ گئے اور پودے مرجھانے لگے۔ گاؤں کے اکثر لوگ اپنے کھیت چھوڑ کر شہروں کو ہجرت کر گئے۔ لیکن رحیم چچا نے ہار نہیں مانی۔ وہ دور دراز سے پانی لے کر آتے اور اپنے پودوں کو ایک ایک قطرہ پانی فراہم کرتے۔ انہیں یقین تھا کہ یہ پودے ایک دن ضرور کھلیں گے اور ان کی محنت رنگ لائے گی۔ ان کی اہلیہ نے ان سے کہا کہ اب بس کر دو، یہ سب بیکار ہے، لیکن رحیم چچا کا جذبہ پختہ تھا۔ وہ کہتے، "یہ صرف پودے نہیں، یہ میری امیدیں ہیں۔"
ایک اور مرتبہ طوفان آیا، جس نے باغیچے کو بری طرح تباہ کر دیا۔ پھولوں کی پنکھڑیاں بکھر گئیں، درخت جڑوں سے اکھڑ گئے اور باغیچہ ایک ویران میدان کا منظر پیش کرنے لگا۔ گاؤں والے افسوس کرنے آئے اور انہیں تسلی دی، مگر رحیم چچا نے آنسو نہیں بہائے۔ انہوں نے اگلی صبح ہی اپنی کھرپی اور کدال اٹھائی اور دوبارہ کام شروع کر دیا۔ وہ جانتے تھے کہ اگر وہ اس وقت ہمت ہار گئے تو ان کی ساری عمر کی محنت ضائع ہو جائے گی۔ انہوں نے ٹوٹے ہوئے پودوں کو دوبارہ لگایا، مٹی کو برابر کیا اور نئے بیج بوئے۔ یہ ان کے غیر متزلزل ارادے اور صبر کا امتحان تھا۔
رحیم چچا کی سب سے بڑی طاقت ان کا مثبت رویہ تھا۔ وہ کبھی کسی سے شکوہ نہیں کرتے تھے، چاہے حالات کتنے ہی برے کیوں نہ ہوں۔ وہ ہمیشہ مسکراتے رہتے تھے اور ہر گزرنے والے کو اپنے باغیچے کی تعریف کرتے ہوئے ملتے تھے۔ ان کے اندر ایک عزم تھا کہ وہ اپنے کام سے کبھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ انہیں صرف پیسوں کی فکر نہیں تھی، ان کا سب سے بڑا انعام ان کے کھلے ہوئے پھولوں کی خوبصورتی اور خوشبو تھی۔
سال گزرتے گئے اور رحیم چچا کی عمر مزید بڑھتی گئی، لیکن ان کی محنت میں کوئی کمی نہیں آئی۔ ایک دن شہر سے ایک مشہور ماہرِ نباتیات گاؤں کے دورے پر آیا۔ وہ خوبصورت مناظر کی تلاش میں تھا۔ اسے رحیم چچا کے باغیچے کی خوشبو نے اپنی طرف کھینچ لیا۔ جب اس نے باغیچے کو دیکھا تو حیران رہ گیا! اس نے زندگی میں ایسا منظم اور خوبصورت باغ پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ ہر پھول اپنے بہترین روپ میں تھا، ہر پودا صحت مند اور شاداب تھا۔
ماہرِ نباتیات نے رحیم چچا سے ملاقات کی اور ان کے کام کی دل کھول کر تعریف کی۔ اس نے ان سے پوچھا کہ اتنے سخت حالات میں انہوں نے اس باغ کو کیسے برقرار رکھا؟ رحیم چچا نے صرف اتنا کہا، "جذبہ اور لگن سے۔" ماہرِ نباتیات نے ان کی اس لگن اور محنت کو سراہتے ہوئے انہیں ایک بڑے زرعی ادارے میں باغبان کی نوکری کی پیشکش کی، جہاں انہیں بہترین معاوضہ اور سہولیات میسر تھیں۔
رحیم چچا نے ابتدا میں انکار کیا، کیونکہ وہ اپنے آبائی گاؤں اور اپنے پیارے باغیچے کو چھوڑنا نہیں چاہتے تھے، لیکن ماہرِ نباتیات نے انہیں قائل کیا کہ اب ان کی محنت کا پھل انہیں ملنا چاہیے۔ رحیم چچا نے بالآخر پیشکش قبول کر لی اور شہر چلے گئے۔ وہاں انہوں نے اپنی تمام تر مہارت اور لگن سے کام کیا اور جلد ہی ادارے کے بہترین باغبانوں میں شمار ہونے لگے۔
![]() |
رحیم چچا |
رحیم چچا کی کہانی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ محنت، لگن اور مثبت سوچ کسی بھی انسان کو کامیابی کی سیڑھی پر لے جا سکتی ہے۔ مشکلات زندگی کا حصہ ہیں، لیکن جو لوگ ان کا سامنا ہمت اور عزم کے ساتھ کرتے ہیں، وہ بالآخر اپنے مقاصد حاصل کر لیتے ہیں۔ اگر آپ اپنے کام سے مخلص ہیں اور اس میں دل و جان سے لگے رہتے ہیں، تو آپ کو اپنی منزل ضرور ملتی ہے۔ رحیم چچا نے کبھی دولت کا پیچھا نہیں انہوں نے اپنے جنون کو پروان چڑھایا، اور اسی جوش و جذبے نے انہیں دنیا کے لیے ایک مثالی کامیاب انسانن بنا دیا۔
آپ کی زندگی میں ایسا کون سا شعبہ ہے جہاں آپ کو رحیم چچا جیسی لگن دکھانے کی ضرورت ہے؟