گھریلو مسائل پر ایک تحریکی کہانی
پاکستان کے ایک چھوٹے سے شہر میں، جہاں ہر صبح زندگی ایک نئی امید لے کر طلوع ہوتی تھی، وہیں ایک متوسط طبقے کا خاندان بھی آباد تھا—احمد صاحب، ان کی اہلیہ فاطمہ، اور ان کے تین بچے، سارہ، علی، اور چھوٹی عائشہ۔ احمد صاحب ایک پرائیویٹ کمپنی میں کام کرتے تھے اور ان کی آمدنی اتنی تھی کہ گھر کا خرچہ بڑی مشکل سے چلتا تھا۔ فاطمہ ایک پڑھی لکھی اور باہمت خاتون تھیں، جنہوں نے گھر کو سنبھالنے اور بچوں کی بہترین پرورش کرنے کے لیے اپنی زندگی وقف کر رکھی تھی۔
![]() |
ٹیو شن سنٹر |
ان کے گھر میں ہر روز کی طرح ایک نیا چیلنج منہ کھولے کھڑا ہوتا تھا۔ کبھی بچوں کی پڑھائی کا خرچہ تو کبھی گھر کے ٹوٹے پھوٹے سامان کی مرمت، کبھی مہمانوں کی تواضع تو کبھی رشتہ داروں کی ناراضگیاں۔ ان سب مسائل کے بیچ کبھی کبھی گھر کا ماحول تناؤ کا شکار ہو جاتا تھا۔ ایک دن احمد صاحب اور فاطمہ کے درمیان بچوں کی فیس کے مسئلے پر کافی بحث ہو گئی۔ احمد صاحب کا دل بھی بجھ گیا تھا کہ وہ اپنے بچوں کو اچھی تعلیم نہیں دے پا رہے تھے، اور فاطمہ پریشان تھیں کہ کہیں ان کے بچوں کا مستقبل تاریک نہ ہو جائے۔
اس رات، فاطمہ بہت اداس تھیں۔ وہ چاندنی رات میں صحن میں بیٹھی تھیں اور ستاروں کو تک رہی تھیں۔ ان کی آنکھوں میں آنسو تھے، لیکن دل میں ایک مضبوط ارادہ جنم لے رہا تھا۔ انہوں نے سوچا کہ کب تک وہ ان مسائل سے بھاگتی رہیں گی؟ کب تک ان کی زندگی یونہی کسمپرسی میں گزرے گی؟ انہوں نے فیصلہ کیا کہ اب وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھیں گی۔
اگلے دن صبح، فاطمہ نے احمد صاحب سے بات کی اور کہا، "ہمیں ان مسائل کا کوئی حل نکالنا ہوگا۔ ہم کب تک یونہی پریشان ہوتے رہیں گے؟" احمد صاحب نے مایوسی سے کہا، "میں نے سب کچھ سوچ لیا ہے فاطمہ، مگر کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔" فاطمہ نے مسکراتے ہوئے کہا، "راستہ تب نظر نہیں آتا جب ہم اندھیرے میں ہوں۔ اگر ہم مل کر روشنی ڈھونڈیں تو سب کچھ ممکن ہے۔"
فاطمہ نے سب سے پہلے اپنی پرانی سلائی مشین نکالی جو کئی سالوں سے بیکار پڑی تھی۔ انہوں نے محلے کی چند خواتین کو سلائی سکھانا شروع کیا اور تھوڑی سی فیس لینا شروع کر دی۔ شروع میں انہیں مشکلات پیش آئیں، لیکن ان کی محنت اور لگن نے رنگ دکھایا۔ جلد ہی ان کے پاس کافی طالبات جمع ہو گئیں اور ان کی آمدنی میں تھوڑا اضافہ ہونے لگا۔ اس کے ساتھ ہی، سارہ، جو کہ بڑی اور ہوشیار تھی، اس نے ٹیوشن پڑھانا شروع کر دیا۔ وہ چھوٹی کلاسوں کے بچوں کو پڑھاتی تھی اور اس سے بھی کچھ آمدنی ہو جاتی تھی۔
احمد صاحب نے بھی اپنی کمپنی میں ایک نئے پروجیکٹ پر اضافی وقت دینا شروع کیا، جس سے انہیں کچھ بونس ملنے کی امید تھی۔ وہ گھر آتے تو تھکے ہارے ہوتے، لیکن فاطمہ کی ہمت اور بچوں کی لگن دیکھ کر انہیں بھی حوصلہ ملتا تھا۔ گھر کا ماحول بدلنے لگا۔ پہلے جہاں ہر بات پر جھگڑا ہو جاتا تھا، اب وہاں مشورے اور امید کی باتیں ہونے لگیں۔ احمد صاحب اور فاطمہ نے مل کر بجٹ بنانا شروع کیا۔ غیر ضروری اخراجات کم کیے اور بچت پر زور دیا۔
ایک دن، چھوٹی عائشہ بیمار ہو گئی اور ڈاکٹر نے بڑے اخراجات کا بتایا۔ احمد صاحب اور فاطمہ پھر پریشان ہو گئے، لیکن اب ان کے پاس کچھ بچت موجود تھی، جس کی وجہ سے وہ فوری طور پر علاج کروا سکے۔ اس واقعے نے انہیں احساس دلایا کہ ان کی کوششیں رائیگاں نہیں جا رہیں۔
کئی مہینوں کی مسلسل محنت اور قربانیوں کے بعد، ان کے گھر کے مالی حالات بہتر ہونے لگے۔ بچوں کی فیس کا مسئلہ حل ہو گیا، گھر کی چھوٹی موٹی ضروریات پوری ہونے لگیں، اور سب سے اہم بات یہ کہ ان کے گھر میں سکون اور محبت واپس آ گئی تھی۔ احمد صاحب اور فاطمہ نے محسوس کیا کہ مشکلات زندگی کا حصہ ہیں، لیکن ان کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ اور ایک دوسرے کا ساتھ ہی حقیقی کامیابی کی کنجی ہے۔ انہوں نے یہ بھی سیکھا کہ چھوٹی چھوٹی کوششیں بھی بڑے نتائج لا سکتی ہیں، بشرطیکہ لگن اور باہمی تعاون شامل ہو۔
اس خاندان نے ثابت کیا کہ گھریلو مسائل کو صرف مالی تنگی سے نہیں، بلکہ ذہنی ہم آہنگی، باہمی تعاون، اور مثبت سوچ سے بھی حل کیا جا سکتا ہے۔ ان کا گھر اب صرف ایک عمارت نہیں تھا، بلکہ ایک مضبوط قلعہ تھا، جس کی بنیادوں میں محبت، قربانی، اور امید کی اینٹیں چنی ہوئی تھیں۔ وہ جانتے تھے کہ زندگی میں مزید چیلنجز آئیں گے، لیکن انہیں یہ بھی یقین تھا کہ وہ مل کر ہر طوفان کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ ان کی کہانی اس بات کا ثبوت تھی کہ جب خاندان متحد ہو تو کوئی بھی مشکل ان کا راستہ نہیں روک سکتی۔
کیا آپ کو مزید ایسی کہانیاں پڑھنے میں دلچسپی ہے؟